Get Alerts

عدم اعتماد کی اجازت رولز میں ہے، آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جاسکتا، چیف جسٹس

عدم اعتماد کی اجازت رولز میں ہے، آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جاسکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے کہا کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل دیے عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جا سکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ان کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی، کیا اسپیکر عدالتی فائینڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے، انہوں نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا، یہ رولنگ آئین کے خلاف ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے، وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی، جس کی اسٹبلشمنٹ نےتردید کی۔

رضا ربانی نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے، جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا، اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟

وکیل نے جواب دیا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا، ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو لیکن اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟وکیل نے جواب دیا کہ غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، بلکہ صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں، صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے،پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے۔