شیڈولینڈز؛ لیاری کی پیچ دار گلیوں سے اٹھ کر اسمبلیوں تک پہنچنے والے گینگز کی داستان

شیڈولینڈز؛ لیاری کی پیچ دار گلیوں سے اٹھ کر اسمبلیوں تک پہنچنے والے گینگز کی داستان
' شیڈولینڈز' کی آمنہ بلوچ نے دو دہائیوں میں جو کچھ جھیلا، اس کا جوہر بیان کرتے ہوئی کہتی ہیں؛ 'ماضی ساتھ نہیں چھوڑتا'۔ وہ نذیر بلوچ کی بیوہ ہیں جنہیں سندھ پولیس کے ایس پی چودھری اسلم نے کراچی کے مضافات میں 2009 میں رحمان بلوچ کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔

' شیڈولینڈز' سماجیات کی پروفیسر ندا کرمانی کی قابل ستائش پیش کش ہے۔ لیاری پر بنی 30 منٹ دورانیے کی اس ڈاکومینٹری میں نوجوان ہدایت کار دوستین بلوچ نے جو کچھ دکھایا ہے، کراچی سے نکلنے والے اردو اور انگریزی اخبارت نے اسے کبھی توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔ یہ شہر کئی زبانوں میں خبریں شائع کرنے والے سینکڑوں کثیر الاشاعت روزناموں کا مرکز ہے۔ اس شہر میں لمحے لمحے کی خبر سے اپنی پیاس بجھانے والے کئی بڑے چینلز کے دفاتر بھی واقع ہیں۔ ان میں سے بیش تر دفاتر کا لیاری سے فاصلہ شاید 10 کلومیٹر سے بھی کم بنتا ہو لیکن ان کے کیمرے لیاری سے گزرتے ہوئے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں کہ کہیں اچھے گھرانوں میں دیکھی جانے والی نشریات پر برا اثر نہ پڑ جائے۔

آمنہ بلوچ کے شوہر نذیر بلوچ کو قتل کرنے والے پولیس افسر چودھری اسلم سے میری سرسری واقفیت لیاری میں پولیس آپریشن کے دوران ہوئی۔ ان دنوں میں بلوچی زبان میں خبریں نشر کرنے والے ایک ٹی وی چینل سے وابستہ تھا جس کی خبروں کے مرکزی دائرے میں لیاری بھی شامل تھا۔ چودھری پہلی نظر میں مجھے پنجابی فلموں کا روایتی کردار لگا۔ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی جیسا حلیہ تھا۔ پیچ کھائے بال، الجھی ہوئی داڑھی، سفید کاٹن کی قمیض کی کھلی حدود سے باہر جھانکتی موٹی توند، جو اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف لڑ رہا ہوتا ہے لیکن کوئی اس کے انصاف پانے کے تصور کو سمجھ نہیں پاتا۔ چودھری کو زندگی کی عام چہل پہل یا سیاست میں نرم خو لوگ پسند نہیں تھے۔ ان دنوں پیپلز پارٹی کے لیڈروں میں اس کی پسندیدہ شخصیت فیصل رضا عابدی کی تھی جو کراچی پر قبضے کی جنگ میں ٹی وی سکرین پر مخالفین پر دھاڑتا تھا جس کے شوز وہ شوق سے دیکھتے تھے۔

یہ آج سے 11 سال پہلے کی بات ہے یعنی سال 2012 کی۔ بہار کے خوشگوار دنوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ کراچی میں بہار کا وہ تصور اب ممکن نہیں رہا جو پھولوں کے کھلنے سے ذہن میں آتا ہے۔ بہرحال اس سال گولیوں اور آنسو گیس نے چیل چوک اور غوث بخش بزنجو کی یاد میں قائم بزنجو چوک لیاری کی فضا کو عام دنوں کی نسبت قدرے زیادہ گرما دیا تھا البتہ ان 11 سالوں میں حالات بدتر ہوتے گئے جن کی جھلک ' شیڈولینڈز' میں دکھائی دیتی ہے۔

آمنہ بلوچ شوہر کے قتل کے بعد اپنی ساری توجہ بچوں کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ وہ زندگی اسے پسند نہیں جو اس کے شوہر نے گزاری اس لئے وہ نہیں چاہتی کہ بچوں پر اس ماضی کا سایہ پڑے جہاں تاریکی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

لیاری کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ تنگ و تاریک اور پتلی گلیوں کی ایک پیچیدہ دنیا ہے جسے ' شیڈولینڈز' میں دو کرداروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے؛ آمنہ بلوچ اور نواز لاسی۔ یہ دو کردار ناخواستہ آفت کا شکار بنے ہیں۔ ایک کے شوہر کو پولیس نگل گئی جبکہ دوسرے کے دو بیٹے گینگ کا ایندھن بنے اور دو پولیس کی بندوق کی غذا بن گئے جبکہ جو دو بچ گئے تھے، ان کو علاقے میں بآسانی دستیاب منشیات کے گھن چکر نے جیتے جی زومبی بنا دیا۔

شوہر کے قتل پر معصوم بچوں کو سینے سے لگا کر بین کرنا یا جوان بچوں کے جنازوں کو کندھے دینا؛ ان چند سالوں میں یہ دکھ لیاری میں غیر معمولی بات نہیں رہا۔ یہ کم و بیش ہر کس و نا کس کا مشترکہ مسئلہ بن چکا ہے۔ ' شیڈولینڈز' میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین بچوں کی اکیلی سرپرست آمنہ بلوچ کے خیالات اکثر تاریکیوں سے سر ٹکراتے رہتے ہیں۔ وہ خود سے الجھتی ہے، اسے کمفرٹ زون کی تلاش ہے۔ اردگرد چھائی تاریکیوں سے اس کو خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کا بیٹا اپنے باپ سے منسوب واقعات لوگوں کی زبانی سن کر ان سے اثر قبول نہ کر لے اور وہی راستہ اختیار نہ کر لے جو اس کے باپ کا تھا۔

لیاری کے رگ و ریشے میں جرائم کی دخل اندازی اس قدر گہری ہے کہ کسی بھی کم سن کے لیے سیدھے اور معمول کے راستے سے بھٹک جانا عام سی بات ہے۔ مجھے اپنی کم سنی کے وہ دن یاد ہیں جب ہم غنڈوں کی متاثر کن کہانیاں سُن کر بڑے ہوئے۔ ہمارا بچپن خوش نصیب اور پڑھے لکھے گھرانوں میں پلنے والے بچوں جیسا نہیں تھا جو اپنے بزرگوں سے نیک دل بادشاہوں، خوبصورت پریوں اور دانش مند وزیروں کے قصے سنتے ہیں۔

میرے پڑوس میں ایک بزرگ رہتے تھے جن کے پاس ریٹائرمنٹ اور موٹی جسامت کے باعث چارپائی پر پڑے رہنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ صبح سے شام تک گلی سے گزرنے والے مرد عورتوں، ہر ایک سے علیک سلیک کر کے اپنے دن گزار رہے تھے۔ ان کے شناساؤں میں ایک غنڈہ بھی شامل تھا؛ کالا ناگ۔ اس غنڈے نے شیرک، دادل کی غنڈہ گردی کے متوازی ریکسر لائن اور کلاکوٹ کے علاقوں میں اپنا الگ بھرم قائم کیا ہوا تھا۔ شام کو جب ہم کھیل کود سے فارغ ہوتے، ہمارا پڑوسی بزرگ ہمیں کالا ناگ کی بہادری کے کارنامے سنایا کرتا تھا جن میں حبیب بینک پلازہ سے چھلانگ لگانے کی جھوٹی کہانی بھی شامل تھی۔

قصے کے مطابق ایک مرتبہ پولیس کالا ناگ کا پیچھا کر رہی تھی۔ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ کراچی کی سب سے بلند عمارت، 25 منزلہ حبیب بینک پلازہ کی چھت پر چڑھ گیا۔ پیچھے پولیس تھی اور آگے موت کا کنواں۔ کالا ناگ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بلند و بالا عمارت کی چھت سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ وہ جب زمین پر گرا، اس کی آنتیں باہر نکل آئی تھیں۔ بہرحال اس نے ہار نہیں مانی۔ آئی آئی چندریگر روڈ سے کسی نہ کسی طرح چلتا ہوا لیاری اپنے اڈے پر پہنچا لیکن خود کو پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ کالا ناگ، شیرک و دادل، پُردُل اور کئی دیگر غنڈے تھے جن کی کہانیاں لیاری کے بچوں نے سن رکھی ہوں گی۔ یہ غنڈے کسی قدر بھی قابو سے باہر نہیں تھے۔

' شیڈولینڈز' کی کہانی گینگ کے کارپوریٹ بننے اور سماجی فضلہ پھیلانے کی کہانی ہے۔ پروفیسر ندا کرمانی لیاری سے بہتر واقف اور مجھ سے زیادہ معلومات رکھنے والی ماہر سماجیات ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ گینگ نے جب سیاسی انسٹی ٹیوشن کی شکل اختیار کر لی تو اس کے کنٹرول میں پاکستان کی قانون ساز قومی اسمبلی کی ایک اور سندھ کے قانون ساز ادارے کی دو نشستیں تھیں۔ یہ گینگ قانون نافذ کرنے کا ذمہ دار ادارہ بن چکی تھی۔ سوشل سیکٹر اور تعلیمی ادارے اس کے زیر نگرانی سانس لے رہے تھے۔

' شیڈولینڈز' نیٹ فلکس کی سیریز الچاپو اور نارکو یا پابلو ایسکوبار جیسی داستان ہے۔ سیاست جب اپنے بُنے اور بنائے ہوئے قانون اور اصولوں کو روندتی ہے اور مجرمانہ کھیل کھیلنے لگتی ہے تو گینگز اور مافیائی کردار اپنے رنگ ڈھنگ بدل کر سیاسی منڈلی پر براجمان ہو کر عوامی رہنماؤں جیسی اداکاری کرنے لگتے ہیں جبکہ ان کا پھیلایا ہوا گند ' شیڈولینڈز' بن جاتا ہے۔

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔