از عمار مسعود
میں دیکھنا چاہتا ہوں مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ میں سننا چاہتا ہوں مگر میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا گیا ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں مگر میرے لب سی دیئے گئے ہیں۔ میں خواب دیکھنا چاہتا ہوں تو نیند کوسوں دور بھاگ جاتی ہے۔ میں سونے کی کوشش کرتا ہوں تو ہڑبڑا کر اپنے ہی خوف سے اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میں خود سے بھِی خوفزدہ ہوں لیکن بہادری کا تمغہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہوں مگر سچائی کا دعویدار کہلانا چاہتا ہوں۔ میں باطل کی آواز ہوں مگر حق کا علم لہرانا چاہتا ہوں۔ میں اپنی منزل کی تلاش میں ہوں مگر گمراہ ہو گیا ہوں۔ میں مشعل راہ بننا چاہتا ہوں مگر خود بھٹک گیا ہوں۔ میں سراب کی، ہر لمحہ، ایک نئے عذاب کی تلاش میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو اپنے خواب کی تلاش میں ہوں۔
ایک زمانہ تھا میرے پاس بہت سوال تھے مگر اب سب سوال قتل ہو گئے ہیں۔ اب جواب میرے ماتھے پر تھوپ دیئے گئے ہیں۔ اب مجھے جستجو نہیں رہی۔ کاوش، کوشش سب نامراد ہو گئی ہیں۔ خواہش، خواب سب مر گئے ہیں۔ امید، آرزو سب ختم ہو گئے ہیں۔ معلوم اور نامعلوم کے فاصلے مٹ گئے ہیں۔ اعتبار اور اعتماد سب ختم ہو گیا ہے۔ اب ایک سکوت ہے۔ ایک گہرا سکوت ہے۔ ایک ناامیدی ہے۔ ایک بے ثباتی ہے۔ ایک بے اطمینانی ہے۔ ایک نامرادی ہے۔ ایک مسلسل ناکامی ہے۔ جو میرا مقدر ہے۔ جو میرا مستقبل ہے۔
میرے سارے لفظ بے ثمر ہو گئے ہیں۔ میرے سارے ہنر خاک میں مل گئے ہیں۔ میرے سارے احساس مر گئے ہیں۔ میں اب ایک مشین ہوں۔ ایک بے جان، بے حس اور بے وجہ مشین۔ جو چل رہی ہے۔ بنا کسی کام کے، بنا کسی دام کے۔ بنا کسی آرزو ناتمام کے۔ نہ اب کوئی خواہش ہے نہ امید نہ کوئی جستجو۔ مجھے اپنے آپ پر بہت مان تھا۔ میں زمانے سے لڑنا چاہتا تھا۔ میں بہت اونچا اڑنا چاہتا تھا۔ میں ستاروں کو تسخیر کرنا چاہتا تھا۔ میں آسمانوں میں کمندیں ڈالنا چاہتا تھا۔ میں بہت کچھ سوچنا چاہتا تھا۔ لیکن سوچ پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ میں بے بس، بے چارہ اور لاچار ہو گیا ہوں۔ میں آزاد ہوتے ہوئے قید ہو گیا ہوں۔
یہ نہیں کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے خود شوق سے دھوکہ کھایا ہے۔ اپنی آزادی خود سلب کی ہے۔ اپنے پاؤں میں خود زنجیریں ڈالی ہیں۔ اپنے اوپر خود قدغنیں لگائی ہیں۔ اپنے دست و بازو خود کاٹ دیئے ہیں۔ اپنا سر خود قلم کر دیا ہے۔ میں اپنے آپ کا قیدی ہوں۔ میں وہ مجرم ہوں جو اپنے ساتھ انصاف کے لئے آواز بلند نہیں کر سکتا۔ میں وہ پرندہ ہوں جو قفس سے بے گھری کا زخم لے کر اڑتا ہے۔ اب مجھے یہ قید خوش آ گئی ہے۔ اب مجھے آزادی کی تلاش ہے ہی نہیں۔ اب میں اپنے حال پر مطمئن ہوں۔ مجھے سر جھکا کر چلنا سکھا دیا گیا ہے۔ میری انا کا بت توڑ دیا گیا ہے۔ میں اب بس تسلیم و رضا کا پتلا ہوں۔ میں اب جور و ستم پر آواز اٹھانے سے قاصر ہوں۔ میں اب حق بات کرنے سے قاصر ہوں۔ میں اب سچ کہنے سے ڈرتا ہوں۔ میں اب آواز اٹھانے سے ڈرتا ہوں۔ میں اب چراغ جلانے سے ڈرتا ہوں۔ میں اب صبح کا اعلان کرنے سے ڈرتا ہوں۔ میں اپنے وجود سے منکر ہوں۔ اب مسلسل تاریکی میرا حاصل ہے۔ اب مسلسل مایوسی میرا مستقبل ہے۔
ایک زمانہ تھا جب میں بہت خوش امید تھا۔ جب مجھے نئی منزلیں سوجھتی تھیں۔ مجھے نئے رنگ سجتے تھے۔ مجھ میں آگے بڑھنے کی جستجو تھی۔ سب کچھ پا لینے کی چاہت تھی۔ میرے جذبے سرشار تھے۔ میرے دل میں نت نئی امنگیں جاگتی تھیں۔ میرے خواب جوان تھے۔ لیکن پھر میرا سب کچھ لٹ گیا۔ میرا سب کچھ مجھ سے چھن گیا۔ اب بس ایک بے جان وجود ہے جسے میں گھسیٹ رہا ہوں۔ ایک ناکام امید ہے جسے میں سینے میں لے کر چل رہا ہوں۔
میں چاہتا تو انقلاب لا سکتا تھا۔ ایک نئی دنیا بنا سکتا تھا۔ ایک نیا جہان آباد کر سکتا تھا۔ یہی میرا منصب تھا، یہ میرا مقام تھا۔ مجھے تو راستہ دکھانا تھا۔ مجھے تو امید بننا تھا۔ مجھے تو روشنی کرنی تھی۔ مجھے تو جہان علم و دانش کہلانا تھا۔ مجھے نشان منزل دکھانا تھا۔ میرے حوصلے سے دنیا نے امید پکڑنی تھی۔ میری جرات پر تو زمانوں نے فخر کرنا تھا۔ میری سچائی پر صدیوں تک داد ملنی تھی۔ مگر میں نےخود اپنے آپ کو بے توقیر کر دیا۔ اپنی کجیوں، کمیوں کا میں سب سے بڑا خود اشتہار ہوں۔ اپنی ناکامیوں کا میں خود شاہکار ہوں۔ مجھے کسی دشمن نے کیا تباہ کرنا تھا میں خود اپنے انہدام کا سبب ہوں۔ مجھ پر سب الزام درست ہیں۔ مجھ پر سب دشنام درست ہیں۔ میں اب اپنا مجرم ہوں۔ میں نے تو لوگوں کے لئے آواز بلند کرنی تھی مگر میں نے خود اپنی آواز پر پہرے لگا لیے ہیں۔ اپنے ماتھے پر کلنک سجا لیے ہیں۔ اپنے گھر کو خود آگ لگا لی ہے۔ میں خود اپنی مرضی سے راکھ ہو گیا ہوں، خاک ہو گیا ہوں۔
میں اب آزاد نہیں ہو سکتا۔ آزادی کی خواہش نہیں رکھ سکتا۔ مجھے میرے خوف نے قید کیا ہوا ہے۔ مجھے اب میری اپنی آواز سے ڈر لگتا ہے۔ میں اس قدر خوفزدہ ہوں کہ اپنی ہی سماعتوں سے ڈرنے لگا ہوں۔ سچائی مجھے راس نہیں آتی۔ حق بات سجھائی نہیں دیتی۔ ضمیر مر چکا ہے۔ حسیات ختم ہو چکی ہیں۔ میں مایوسی کے گرداب میں ہوں۔ میں اپنے وجود کے عذاب میں ہوں۔ میں اپنی حیثیت سے منکر ہوں۔ یہ نہیں کہ میں آواز بلند نہیں کر سکتا مگر میری آواز کی راہ میں میری اپنی مصلحتیں حائل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے گرد اتنا بے ہنگم شور ہو کہ میری دسترس میں میرا اپنا سناٹا نہ آ سکے۔ میں ایسی نیند چاہتا ہوں کہ جومجھے نئے خواب نہ دکھا سکے۔ نئی روشنی کا کوئی استعارہ نہ بتا سکے۔ مجھے کوئی نیا رستا نہ سجھا سکے۔ میرے پاؤں کی زنجیر اب میری عادت ہو گئی ہے۔ میری نابینائی اب میری ضرورت ہو گئی ہے۔ میری سماعتوں پر پہرے میری حاجت ہو گئے ہیں۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں، جو اندھیری تاریک راتوں میں، اپنی امید پر، دہاڑیں مار مار کر رو رہا ہوں۔ اپنے ہی خلاف نفرت کے بیج بو رہا ہوں۔ آپ پوچھ رہے ہیں کہ میں کون ہوں؟ آپ کو میری شناخت درکار ہے؟ تو سنیے اور کان کھول کر سنیے کہ میں اس دور جدید میں اس ملک پاکستان کا 'میڈیا' ہوں۔
میرے خلاف طعنہ زن ہونے سے پہلے، میری ذات کا تمسخر اڑانے سے پہلے، میری تضحیک اور توہین کرنے سے پہلے، میرے نام و نشان کو مٹانے سے پہلے، سوچ لیجئے کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ میں سننا چاہتا ہوں مگر میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا گیا ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں مگر میرے لب سی دیئے گئے ہیں۔