نوجوان نقیب اللہ محسود کے ’’ماروائےعدالت قتل‘‘ کو چند ہفتوں بعد مکمل دو سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران شاید بہت سارے لوگوں کی زندگی میں بہت کچھ بدلا ہو، پر ایک شخص ایسا بھی تھا جس کی ان دو سالوں میں تگ و دو یہی تھی کہ وہ کسی طرح اپنے بیٹے کے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچا سکے۔
یوں تو کورٹ کچہریوں میں گھستے جوتوں کی چرچراہٹ کی بے شمار آوازیں ہوں گی، پر کم ہی ایسے قدم ہوں گے جن کی گونج نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کے بوجھل قدموں کی گونج سے زیادہ ہوں۔ کینسر زدہ محمد محسود خان نے دیگر سائلوں کی طرح اپنی ایڑیاں ایک لاعلمی یا حد سے زیادہ یقین کی ’’حماقت‘‘ میں رگڑ رگڑ کر خون آلودہ کیں۔
ان کی لاعلمی تھی کہ ہمارے نظام انصاف کے مروجہ قانون سے جو دکھاتا ہے کہ کس طرح انصاف دینے والے کو بوجھل قدموں کی چاپ کے بجائے بھاری جیب کی سرسراہٹ کی آواز تیز سنائی دیتی ہے۔ یقین یہ تھا کہ مرحوم سمجھتے تھے کہ اس بار نظام بدل کر رکھ دیں گے۔
نقیب اللہ محسود کے والد محسود خان نے کینسر جیسی موزی بیماری سے لڑتے ہوئے مستقل آنکھیں بند کر لیں مگر ان کے آس پاس کہ حلقہ احباب بتا سکتے ہیں کہ مرحوم کے لئے یہ بیماری ہرگز اتنی تکلیف دہ نہیں تھی جتنی تکلیف راؤ انوار کے چہرے پر پشیمانی کی چند لکیریں تلاش کرنے میں ہوئی۔
رکیے! اوپر درج پیراگراف قارئین پر یہ تاثر چھوڑ رہا ہے کہ لکھاری اس نظام سے مایوس ہے اور مایوسی پھیلا رہا ہے۔ نہیں دوستوں! یہاں تو مجھے ریاست کا شکریہ بھی ادا کرنا ہے کہ اس نے مظلوم باپ کے دکھوں پر مزید تیل نہیں چھڑکا اور ایک بے بس والد کی بے بسی کا مزید تمسخر اڑانے سے پرہیز کیا۔ ورنہ ریاست نے تو اقبال لالا کے خلاف طالبہ یکجہتی مارچ میں اپنی رندھی آواز بلند کرنے پر غداری سمیت مختلف مقدمات درج کرا دیے ہیں۔
مایوسی کو کفر مانتے ہوئے اس اقدام پر بھی اداروں کا شکر گزار ہوں کہ بات صرف مقدمات تک محدود رکھی گئی ورنہ طاقتوروں کے آگے کون سے حدودوقیود کی پابندی ہوتی ہے۔
پر اب وقت آ گیا ہے کہ اس مرحوم بوڑھے والد کی لاش نہیں تو پگڑی پر رحم کیا جائے۔ جس پر پائے جانے والی شکنیں ان شکنوں سے کئی گنا کم ہیں جو جوان اولاد کے بیہمانہ قتل پر کسی بھی شخص کے کلیجے پر پڑ سکتی ہیں۔ پگڑی کو ویسے تو بہت ساری ثقافتوں میں وقار اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد ان کے والد اس وقار اور احترام کی علامت کو اپنے آنسو پونچھنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
آرمی چیف نے نقیب اللہ محسود کے والد کے انتقال پر افسوس کا پیغام تو جاری کیا ہے مگر شاید وہ اس وعدے کو بھول گئے ہیں جو انہوں نے مرحوم کی زندگی میں کیا تھا۔ آرمی چیف اگر ایسی مداخلت کو "غیر جمہوری‘‘ سمجھتے ہیں تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو طبیعت کے برعکس ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ تاریخ پر تاریخ کا یہ گرداب ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنے پر تلا ہے۔ دیگر اداروں سے تو امید رکھنی ہی بے سود ہے، کیوں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ’’جمہوری‘‘ ادارے ایسا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
مانا کے انصاف کے حصول میں بہت تاخیر ہوگئی پر خدارا اتنی تاخیر نا کریں کہ نقیب اللہ محسود کے بچے جن کی عمریں چار سے دس سال کے درمیان ہیں اپنی زندگیوں میں باپ کے خون کے انصاف کا حصول نا پا سکیں۔