Get Alerts

کشمیر کی تقسیم پر سمجھوتہ ہو چکا ہے

کشمیر کی تقسیم پر سمجھوتہ ہو چکا ہے
مجھے یاد ہے کہ روایتی سیاست کرنے والے تمام سیاسی کارکنان بحیثیت قوم پرست و ترقی پسند ہم سے شکوہ کرتے تھے یا طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ لوگ اکھٹے نہیں ہوتے ہیں۔

جب ہم قوم پرست و ترقی پسند پی این اے کی صورت میں ایک فورم پر اکھٹے بھی ہو گئے اور "جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک" کا آغاز بھی کر دیا تو کسی حد تک یہ ابہام، طعنہ و شکوہ یقیناً اپنے اختتام کو پہنچا۔
جموں و کشمیر چھوڑ دو تحریک کے پہلے مرحلے کا آغاز کیا گیا۔ بااختیار آئین ساز اسمبلی کا نعرہ دیا گیا جسکو عوام تک پہنچانے کے لیے 16 ستمبر بھمبر سے شروع ہونے والی رابطہ مہم 21 اکتوبر مظفرآباد میں اختتام پذیر ہوئی جوکہ 22 اکتوبر کی صبح ایک بھیانک ریاستی تشدد کے بعد اگلے مرحلے میں داخل ہوئی۔

ہم نے علامتی احتجاج کرنے کے بعد یہاں کی تمام سیاسی تنظیموں کے ساتھ روابط بڑھانے، انکا نقطہ نظر سننے، جاننے اور مشترکہ جدوجہد کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جسکا موضوع " عصر حاضر میں جموں کشمیر کا ممکنہ حل" رکھا گیا۔ تاکہ تمام سیاسی پارٹیز ریاست جموں کشمیر پر اپنا نقطہ نظر دے سکیں۔

شدید ترین سیاسی و نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود ہم مسلم کانفرنس، ن لیگ، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، جے کے پی پی، تحریک انصاف و دیگر سیاسی پارٹیز کے پاس دعوت لے کر گئے کہ آئیں بیٹھیں تاکہ ہم کسی مشترک نقطہ پر پہنچ سکیں مگر سب انتخابی سیاسی پارٹیز دعوت کو قبول کرنے کے بعد ماسوائے مسلم کانفرنس کے کوئی اور تنظیم شرکت نہ کرسکی۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی صدر صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ پاکستان مخالف لوگ ہیں اور ہم فوج مخالف تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جبکے ان عقل کے اندھوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ پی این اے نے بااختیار آئین ساز اسمبلی کا نعرہ ہی لگایا ہے۔  جو کہ پاکستان کیا بلکہ کسی بھی ملک کے مخالف نعرہ نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ریاست کے اختیار و آزادی کی جانب پہلا قدم ہے۔

ن لیگ کے صدر و موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر کسی شادی میں جانے کی وجہ سے کانفرنس میں نہیں آ پائے۔ یاد رہے شادی کی تقریب کوٹلی میں تھی جبکہ آل پارٹیز کانفرنس میرپور میں ہوئی۔ مگر وزیراعظم صاحب چونکہ ایسی کانفرنس میں جا کر نوکری کو خطرے میں دیکھ رہے تھے اس لیے شادی کو ترجیح دیتے ہوئے آ گے نکل گئے۔ تحریک انصاف کے سربراہ جناب سلطان محمود چوہدری صاحب اپنے حلقے میں جیت کا جشن منانے میں مصروف رہے جسکی وجہ سے آل پارٹیز کانفرنس کی شاید یاد ہی نہ رہی ہو گئی۔ یا کوئی اور مصروفیت حائل ہو گی۔روایتی تنظیموں کے سربراہان نے ایک سے ایک بڑھ کر کہانی سنائی، انہوں نے عجیب و غریب قسم کا بہانہ سامنے رکھا اور آگے نکلتے گئے۔ جبکہ گلگت بلتستان سے چوبیس گھنٹے کا سفر طے کر کے اور بھی دوست کانفرنس کا حصہ بنے مگر فوجی پریشر کے باعث نام نہاد آزاد کشمیر کی اشرافیہ مل کر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں جبکہ دوسری جانب کی روایتی پارٹیز "عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی وغیرہ " ابھی تک نہ صرف پابند سلاسل ہیں بلکہ انکی سفری سہولیات تک معطل کر دی گئی ہیں۔ پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں۔ بہرکیف مذمت اور اطاعت گزاری کی نفیسات و غلامی کی شکلوں کا ادراک ایک سماجی سائنس دان و سیاسی کارکن کو ضرور ہونا چاہیے، چند پارٹی سربراہان کو نام لے کر تحریر میں شامل کیا گیا ہے تاکہ سیاسی کارکنان انکی ترجیحات حرکات و سکنات پر نظر رکھتے ہوئے نقطہ نظر قائم کریں۔

یقینی طور پر پی این اے ہر سطح پر عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ہر شہری تک اپنا پیغام پہنچائے گا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انتخابی سیاسی کارکنان سے چند سوالات ضرور رکھو گا۔
پیپلز پارٹی میں بیٹھی خود کو ترقی پسند کہنے والی سیاسی قیادت سے سوال ضرور رکھیں گے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ مظفرآباد بلاول کا استقبال کرنے تو سب اکھٹے ہو جاتے ہیں مگر اپنا اختیار لینے کے وقت سانپ سونگھ جاتا ہے؟

پی ایس ایف و پی وائی او جو کہ خود کو پیپلز پارٹی کا اتحادی طلبہ محاذ سمجھتی ہے، وہ کیسے ایک سیاسی عمل سے الگ بیٹھ سکتی ہے جب ریاست کی تقسیم ختمی مراحل میں داخل ہوچکی ہو؟

ن لیگ میں بیٹھے وہ نوجوانان و سیاسی کارکنان جو حب الوطنی پر یقین رکھتے ہیں، وہ کیسے ایسے موقع پر خاموشی سے الگ رہ سکتے ہیں؟ تحریک انصاف میں تبدیلی کے خواہاں سیاسی کارکنان کیسے ریاست جموں کشمیر کی اس تقسیم کو اگلا الیکشن جیتنے کے لیے قربان کر سکتے ہیں؟

جماعت اسلامی کے ساتھی جو  نظریاتی سیاسی کارکن ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ اس وقت اپنا نظریاتی نقطہ نظر دینے سے دریغ کیونکر کررہے ہیں؟ جبکہ جماعت اسلامی خود بھی آئین ساز و بااختیار اسمبلی کا مطالبہ لے کر آگئے بڑھ رہی ہے؟

معزز دوستو! ریاست جموں کشمیر کی تقسیم دونوں طرف کے حکمران مکمل طور پر سمجھوتے کے تحت قبول کر چکے ہیں۔ مذمت کی تاریخ، تاریخ میں انقلابات اور ناممکن کو ممکن صرف و صرف عوامی جرات کے ساتھ ہی بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے اس اہم ترین اور دشوار ترین موڑ پر ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں کم سے کم اختلافات کو رکھتے ہوئے اپنے اتحادی نقطے( یعنی ریاستی تشخص اور باوقار مستقبل) کو سامنے رکھتے ہوئے اکہتر سالوں سے رائج اس تاریک رات کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔