معلوم ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جلاوطن شریف خاندان کے ساتھ معاملہ کرنے کی غرض سے در پردہ جاری مذاکرات کا باب بند کرنے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت تبدیل کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت پہلے مرحلے میں ن لیگ اور ق لیگ کا ادغام کروایا جائے گا اور اس کے بعد ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ کو شریف فیملی کے قبضے سے واگزار کروایا جائے گا، اسی طرح اگلے مرحلے میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کو بھی زرداری خاندان کے قبضے سے آزاد کروایا جائے گا اور اس مقصد کے لئے شریف فیملی اور زرداری فیملی کو سنگین مقدمات میں اس قدر پھنسا دیا جائے گا کہ دونوں خاندان عملاً اپنی اپنی جماعت کی قیادت چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے اپنی اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے امکانات ختم کرنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اندر سے ہی ایک نئی مسلم لیگ اور ایک نئی پیپلزپارٹی بنائی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق لندن میں مقیم شریف برادران کے خلاف نئے نیب ریفرنس دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق کو ن لیگ کی متبادل قیادت کے طور پر سامنے لایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق مقتدر قوتوں نے ن لیگ کی اس داخلی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ رہنماؤں کو بطور متبادل قیادت ابھارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، اس سے پہلے چوہدری برادران کی مسلم لیگ ق کو واپس مسلم لیگ ن میں ضم کروایا جائے گا تاکہ شریف فیملی سے مسلم لیگ کا قبضہ ختم کروا کے اسے ایک نئی قیادت فراہم کی جاسکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں نے یہ فیصلہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی آئے روز کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر اور مستقبل میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی متوقع نئی قیادت کا ٹنٹا نمٹانے کی غرض سے کیا ہے۔ البتہ اس منصوبے پر عمل کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا جائے گا جس سے نمٹنا اسٹیبلشمنٹ کا پہلا ہدف بتایا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مقتدر قوتوں کی ڈیل طے پا رہی تھی اور ایک اہم حاضر سروس شخصیت کے شہباز شریف کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بعد معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے ان مذاکرات میں یقین دلایا کہ ملکی معیشت کو تھوڑے ہی عرصے میں پٹڑی پر ڈال دیا جائے گا اور ملک میں معاشی استحکام لے آیا جائے گا، اس مقصد کے تحت نہ صرف آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام smoothly جاری رکھتے ہوئے واجب الادا قرضے اتار دیے جائیں گے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے مزید قرضے حاصل کر لیے جائیں گے جن کی شرائط بھی سخت نہیں ہوں گی۔
اہم شخصیت نے وطن واپس آ کر شریف برادران کے ساتھ معاملہ ہو جانے کی اوکے رپورٹ مقتدر حلقوں کو پیش کر دی کہ اسی دوران اہم خفیہ رپورٹ موصول ہوئی جس نے مقتدر حلقوں کو یہ اہم فیصلہ لینے پر مجبور کر دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نواز شریف فیملی نے اسی دوران اپنے بین الاقوامی سفارتی روابط اور اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے امریکی اسٹیبلشمنٹ، بالخصوص ڈیپ سٹیٹ (یعنی پینٹاگون اور سی آئی اے میں بیٹھے درپردہ پالیسی سازوں) کے ساتھ اہم مذاکرات کئے ہیں جن میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کہا گیا کہ آپ 2 شرائط مان لیں تو آپ کو دوبارہ اقتدار میں لایا جا سکتا ہے۔
1 پاکستان کا ایٹمی پروگرام
2 سی پیک کو رول بیک کرنے کی کمٹمنٹ کی جائے
رپورٹ کے مطابق نواز شریف فیملی کی طرف سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایسی کمٹمنٹ کر لی گئی ہے جس کے نتیجے میں خطے میں بھارتی بالادستی عمل میں آ جائے گی اور یوں شریف خاندان بالآخر ملکی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں سابق وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کی پچھلے دنوں کی سرگرمیاں قابل ذکر بتائی جاتی ہیں، جن میں وہ لندن میں متعین غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ رابطوں میں مصروف رہے ہیں۔