شہباز شریف اور زرداری کا طرز سیاست کامیاب نہیں ہو سکتا

شہباز شریف اور زرداری کا طرز سیاست کامیاب نہیں ہو سکتا
پیپلزپارٹی نے حسب توقع مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری کو شاید اب بھی امیدیں ہیں کہ مقتدر قوتیں ان پر مہربان ہوتے ہوئے عدالتی مقدمات میں انہیں اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ریلیف فراہم کر دیں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری اور ان کی جماعت نے اطاعت اور فرمانبرداری کی سیاست آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ سینیٹ انتخابات سے قبل بلوچستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت گرانے سے صادق سنجرانی کے سر چئیرمین سینیٹ کا تاج سجانے اور سینیٹ میں سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو خفیہ طور پر ناکام کروانے کے بعد بھی زرداری صاحب کو مقتدر قوتوں کا کچھ خاص قرب یا عنایات میسر نہ آئیں۔

اب زرداری صاحب اگر پیپلز پارٹی کی جمہوری جدوجہد کے سنہرے ماضی کی ساکھ کو داؤ پر لگا کر محض عدالتی مقدمات میں ریلیف لینے پر ہی آمادہ ہیں تو یہ ان کی مرضی، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس انداز سیاست سے پیپلز پارٹی آنے والی کئی دہائیوں تک محض اندرون سندھ کی سیاسی جماعت تک ہی محدود رہ جائے گی۔

دوسری جانب ایک ایسے وقت میں جب معاشی بحران اور کشمیر کے مسئلے پر عالمی حمایت حاصل نہ کر پانے پر اسٹیبلشمنٹ ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے اور طاقت کی بساط پر نواز شریف اور مریم نواز کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے، شہباز شریف اور ان کے ہمنوا بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کر کے ان ہاؤس تبدیلی یا نئے انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آجائیں۔

مسلم لیگ نواز کی ایک اہم شخصیت جو نواز شریف اور مریم نواز کے قریبی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے مطابق مسلم لیگ نواز اور نواز شریف کے بیانیے کو سب سے زیادہ نقصان موجودہ قیادت جو جیلوں سے باہر ہے اس نے پہنچایا ہے۔ اس شخصیت کے مطابق مسلم لیگ نواز میں گروہ بندی ہو چکی ہے اور شہباز شریف کا دھڑا حتی الامکان کوشش کر رہا ہے کہ کسی بھی صورت اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا رستہ نکال کر اقتدار کے ایوانوں میں واپس پہنچا جائے۔

عموما پاور پالیٹکس ہمیشہ طاقت کے حصول کیلئے ہی کی جاتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب مسلم لیگ نواز کا ووٹر روایتی سٹیٹس کو کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اب اس حد تک اس جماعت کے ووٹ بنک میں مقبول ہو چکا ہے کہ اگر اب نواز شریف یا مریم نواز خود بھی اس بیانیے کو ترک کرنا چاہیں تو انہیں سیاسی حزیمت اور خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں گزشتہ ستر برس سے اسٹیبلشمنٹ نے کبھی براہ راست اور کبھی پس پشت رہ کر حکمرانی کی ہے، اور یہ فطری عمل ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ اب اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی عمل میں مداخلت سے بیزار ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے اس عوامی کیفیت کو بھانپتے ہوئے جمہوری بالادستی کا بیانیہ تشکیل دیا اور یہ بیانیہ ان کو اپنے ووٹ بنک میں مقبول بنا گیا۔ اب اگر مسلم لیگ نواز، شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے دست شفقت کی طالب ہے، تو یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔

اگر موجودہ سٹیٹس کو کے تحت شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ کامیاب ہو بھی جائے اور بالفرض اقتدار کی دیوی دوبارہ مسلم لیگ نواز پر مہربان ہو جائے، تو پھر مسلم لیگ نواز کو سر جھکا کر، ڈکٹیشن لے کر، ایک کٹھ پتلی حکومت بن کر اقتدار کے ایوانوں میں وقت صرف کرنا پڑے گا جبکہ اس کا ووٹ بنک بھی متنفر ہو جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف، مریم نواز کو ایک طرح سے مسلم لیگ نواز کی باگ دوڑ سونپ چکے ہیں اور مریم نواز کسی بھی صورت اپنے چچا شہباز اور ان کے ہمنواؤں کے بیانیے پر زیادہ عرصہ چل نہیں پائیں گی۔

نواز شریف اور مریم نواز نے اگر اپنی جماعت میں موجود کھوٹے سکوں سے جلد ہی جان نہ چھڑائی تو شہباز شریف اور ان کے فرزند مفاہمتی بیانیے کو کامیابی قرار دے کر، مسلم لیگ نواز کو مقبول رکھنے والے بیانیے کو ختم کر کے، اس جماعت کی اقتدار کی بساط پر مضبوط پوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ شہباز شریف کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اور ان کے فرزند حمزہ شہباز عوامی لیڈر بننے کے ہنر سے ناآشنا ہیں اور جو روایتی سیاست وہ کر رہے ہیں اس کی اب عہد حاضر میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ 

آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست نے وفاق کی ایک مرکزی جماعت پیپلز پارٹی کو محض سندھ تک محدود کر کے رکھ دیا ہے اور اگر شہباز شریف بھی اس فارمولے پر عمل پیرا رہے تو مسلم لیگ نواز پنجاب سے سکڑ کر محض لاہور اور اس کے مضافاتی علاقوں تک محدود ہو جائے گی۔ اقتدار کی بساط پر محض طاقت حاصل کرنا ہی اصل کمال نہیں ہوتا بلکہ کمال یہ ہوتا ہے کہ طاقت کے ایوانوں تک رسائی کٹھ پتلی بننے کے بجائے عوامی حمایت اور اپنے زور بازو سے حاصل کی جائے۔

نواز شریف اور مریم نواز کسی صورت ان شرائط پر ڈیل نہیں کریں گے جن کے باعث مسلم لیگ نواز کو بھی سر جھکا کر مقتدر قوتوں کی ڈکٹیشن لینا پڑے۔ چنانچہ شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست بھی آصف زرداری کی سیاست کی مانند مستقبل قریب میں ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔