Get Alerts

آمریت کی لٹکتی تلوار کی وجہ سیاسی جماعتوں کا آمرانہ طرز عمل ہے

آمریت کی لٹکتی تلوار کی وجہ سیاسی جماعتوں کا آمرانہ طرز عمل ہے
چند برس قبل جب میں لندن میں مقیم تھا تو اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بعد کسی اور ملک کی سیاسی جماعتوں  کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور بعض اوقات لیبر پارٹی کے سیاسی امیدواران کے ساتھ ووٹ مانگنے کا  تجربہ بھی کیا۔  برطانیہ کا شمار دنیا کی مضبوط اور پرانی جمہوری  اقدار والے ممالک میں ہوتا ہے۔

اس کے بعد امریکہ میں حکمران جماعت کے چند امیدواران کے ساتھ ملاقات اور الیکشن ریلیوں میں شرکت کا موقع ملا۔ امریکہ میں بھی قدیم اور مضبوط جمہوریت ہے۔ ان تینوں ممالک میں پاکستان کے علاوہ مجھے کہیں بھی جمہوری سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست نظر نہیں آئی۔

امریکہ اور برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کو کوئی ایک خاندان نسل در نسل نہیں چلا رہا جیسے کہ پاکستان میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اکثریت سیاستدانوں کی اپنی اولاد کو بھی سیاست میں لے کر آ جاتی ہے۔  چاہے اس میں کوئی سیاست کرنے کا ہنر ہو یا نہ ہو، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ ایک کاروبار ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں کبھی کوئی بچہ اپنے باپ یا ماں کے کندھوں پر چڑھ کر سیاست میں نہیں آئے گا کیوں کہ یہاں آپ میں وہ قابلیت بھی ہونی چاہیۓ اور آپ کو محنت کر کے اپنی راہ  بھی خود بنانی پڑتی ہے۔

پاکستان میں چند ایک سیاست دانوں سے سننے کو ملا ہے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر ان کی  سیٹ پر یا ان کی سفارش کردہ ایک اور مضبوط  یا مخصوص  نشست پر الیکشن لڑ لے گا۔ گویا بچے کو پڑھائی کے بعد  کسی محنت کی ضرورت نہیں اور بنا بنایا سفارش کا نظام اس کے لیۓ موجود ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے سیاست دان کو بھی جانتا ہوں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے امریکہ میں اچھی نوکری کر رہے تھے مگر سیاست دان باپ کے کہنے پر واپس جا کر الیکشن لڑ کے  سیاست میں آ گئے اور وہ تمام مقامی افراد جو نجانے کب سے اس نشست تک پہنچنے کے لیۓ کوشش کر رہے تھے وہ اسی طرح کوشش کرتے رہ گئے کیوں کہ ان کا کوئی باپ یا چاچا  سیاست میں اعلی منصب پر موجود نہیں تھا۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں اور عام لوگ جو کہ مدتوں سے سیاسی ورکر ہوتے ہیں وہ اسی طرح سیاسی ورکر ہی رہتے ہیں انہیں کسی نشست کا کوئی ٹکٹ شازونادر ہی نصیب ہوتا ہے۔ کچھ ایسا حال ہی اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ہے جو والدین کے بعد ان کے بچے تمام سیاسی ورکروں کو اپنے نیچے روندتے ہوئے، ان کی سنیارٹی کا مذاق اڑاتے ہوئے پارٹی کی قیادت تک پہنچ کر اب وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنے میں مصروف ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاست ایک ایسا نفع بخش کاروبار ہے کہ اس کو نسل در نسل پکڑ کر بیٹھے رہنے کا جی چاہتا ہے جبکہ پرانے ورکر بس نعرے لگانے کی حد تک رہ جاتے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کی مثال میں پہلے دے چکا ہوں، وہاں پر ایسا کوئی نظام دیکھنے کو نہیں ملتا۔ وہاں سیاسی جماعت پر کسی ایک خاندان  کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کے عین مطابق  سب محنت کرنے والوں کو متفقہ طور پر موقع دیا جاتا ہے۔ گویا ہم پاکستان میں جمہوریت کے دعوے اور نعرے تو لگاتے ہیں مگر ان نعرے لگانے والوں کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں  ایک ہی خاندان کے گرد گھومتی ہیں اور آمرانہ روح رکھتے ہوئے بھی جمہوریت کے راگ الا پتے ہیں۔ ہونا تو ایسا چاہیۓ کہ  سیاسی جماعتوں کی سربراہی جمہوریت کے مطابق مختلف  افراد کو ملنی چاہیۓ ۔

ہم پر ہر وقت آمرانہ خوف کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری اپنی سوچ اور سیاسی جماعتوں کا طرز عمل بھی آمرانہ ہے۔ اگر ہماری بڑی سیاسی جماعتیں جمہوریت کی روح کے عین مطابق چلنا شروع کر دیں تو جہاں لوگوں میں ان جماعتوں کا اعتماد بحال ہو گا وہاں آمرانہ خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ  پرانے اور قابل سیاسی ورکروں کو بھی آگے بڑھنے کا برابر موقع ملنا چاہیۓ۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔