ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو زبردستی شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اگر کہیں ایسا ہو رہا ہے تو قابل مذمت ہے۔
https://t.co/pv29FbUMa6 pic.twitter.com/y7jHZ4C8ep
— Malala (@Malala) July 4, 2019
ملامہ نے یہ بھی کہا کہ کسی کی زبردستی دوسرے مذہب میں تبدیلی بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔
بچوں کےلیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق کم عمربچوں کی شادی کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبرپر ہے، اور ایک عالمی تنظیم Girls Not Brides کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی شادی ہوجاتی ہے اور 13 فیصد اپنی پندرہویں سالگرہ سسرال میں مناتی ہیں۔
یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر اٹھارہ سال سے کم عمر بارہ ملین بچیوں کی شادیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اگر بلوغت کی عمر سے پہلے بچیوں کی شادی کی یہ شرح برقرار رہی تو 2030 تک ایک سو پچاس ملین سے زائد لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی بیاہ دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ‘ (UNFPA) رپورٹ کے مطابق یہ رحجان غریب ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ دنیا کی 95 فیصد کم عمر مائیں غریب ممالک میں ہی ہیں۔ پاکستان میں بھی غریب ترین علاقوں میں یہ رواج عام ہے۔
عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 12 ایشیائی ممالک میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے تقریباً 63 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی وجہ ان بچوں کا اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرنا تھی۔ کم عمری کی شادی کا رواج ترقی پذیر ممالک میں عام ہے، بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ غربت اور کم عمری کی شادی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک نے اگر ایسی شادیوں کی روک تھام نہیں کی تو اس کا نقصان ان کی معیشت کو 2030 تک ٹریلین ڈالرز میں بھگتنا پڑے گا۔