بلوچستان کا تعلیمی نظام

بلوچستان کا تعلیمی نظام
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام وافراد کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے۔ اس لیے ہر معاشرے میں تعلیم کی ترقی کیلئے کوششیں ہوتی ہیں. ماضی میں تعلیم کی ترقی کیلئے مفکرین اور علماء نے بہت کوششیں کی ہیں اور ان کی بدولت ماضی میں ہماری درسگاہوں اور اساتذہ کا اپنا مقام تھا. لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا ستیاناس ہوا پچھلے کچھ دہائیوں سے کہ ہر کوئی اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہا ہے. بنیادی سہولتوں کا فقدان ، غیر ضروری نصاب، اقربا پروری، کرپشن، رشوت خوری اور انتظامیہ کے طرف سے ہراسمنٹ نے ہمارے تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے.

طالبعلموں کو کوئی چیز عملی طور پر کرانے کی بجائے ان کو رٹنے پر مجبور کیا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام حکومت کی ناقص پالیسی اور تعلیم کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی وجہ سے بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے. ہمارے ہاں طبقاتی بنیاد پر تعلیمی بجٹ تقسیم کیا جاتا ہے بجٹ کا زیادہ تر حصہ پبلک اور نیم پبلک سیکٹرز میں تقسیم کیا جاتا جہاں پر مراعات یافتہ طبقہ زیرِ تعلیم ہے باقی سرکاری اداروں کیلئے کچھ بچتا نہیں.

ہمارے ہاں تو پرائیویٹ اداروں کا یہ حال ہے کہ میٹرک کا طالبعلم اردو کی ریڈنگ تک نہیں کرسکتا باقی تو اللہ اللہ خیر سے، سرکاری سکولوں کا تو اللہ ہی حافظ۔

 

جس قوم نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی ایکٹ پاس کرنے میں سال لگتے ہیں لیکن ہمارے ہاں دنوں میں تبدیلیاں ہوتی ہے اور بعد میں اسی کو کورٹ میں چیلنج بھی کرتے ہیں.

 

بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو موجودہ ادارے ہیں وہاں پر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے

 

لہٰذا ہم بلوچستان حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں قائد اعظم اسلام آباد ،اسلامک انٹرنیشنل اسلام آباد ، گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی لاہور، لمز یونیورسٹی لاہور جیسے ادارے بنائے.

 

اگر حکومت اس چیز کی اہل نہیں کہ وہ اس قسم کے ادارے بنا سکیں پھر کم از کم بلوچستان کے طالبعلموں پر اتنا رحم فرمائے کہ جو موجودہ ادارے ہیں بلوچستان کے اِس میں ہمیں وہ تعلیم تو مہیا کرے جو پنجاب یا اسلام آباد کے اداروں میں دی جاتی ہیں یا پھر صوبے میں یکساں اور بہتر تعلیمی نظام کو فروغ دیں.

 

تاکہ ہمارے طالبعلم کل کسی اچھے ادارے میں داخلہ لینے کیلئے تیار ہوں۔ پاکستان کے جن اداروں میں بلوچستان کے طالبعلموں کیلٸے کوٹہ سسٹم ہے وہ کسی حد تک صحیح ہے لیکن اوپن میرٹ میں بلوچستان کے طلبہ کا ایڈمیشن نہ ہونا باعث تشویش ہے.

 

لمز یونیورسٹی لاہور کے بارے میں بتاتا چلوں جہاں پر ایڈمیشن اوپن میرٹ پر دیئے جاتے ہیں۔ پورے پاکستان سے، لیکن پھر بھی 7000 طلبہ میں سے بلوچستان کے صرف 10 سے 15 طالبعلم وہاں پر زیرِ تعلیم ہیں۔ بلکہ اُس میں سے بھی 3،4 بلوچستان کے لوکل ڈومیسائل رکھنے والے ہیں۔ باقی سارے صرف ڈومیسائل والے ہیں جو کسی اور صوبے سے آئے ہوئے ہیں یہ صرف ایک ادارے کی بات ہو رہی ہے ایسے بہت سے اور بھی ادارے ہیں جن میں بلوچستان کے طلبہ نہ ہونے کے برابر ہے. 

 

صوبائی حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے کہاں کہاں پر کمی ہے اسے مکمل کرنے کی کوشش کریں تعلیم کی بہتری کیلئے ہر وسائل کو استعمال میں لائے، وہ ادارے جو انٹری ٹیسٹ منعقد کرتے ہیں ان کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ ہر سال ہزاروں لڑکے ٹیسٹ دیتے ہیں ان میں سے کچھ ٹیسٹ پاس کرتے ہیں اکثریت رہ جاتے ہیں.