گوادر سے کراچی جاتے ہوئے مکران کوسٹل ہائی وے پر کئی ہوٹل موجود ہیں، جن میں ایک درجن کے قریب ڈھابے نما ہوٹل ہیں۔ کراچی سے گوادر آتے ہوئے مجھے لسبیلہ کے ایک گاؤں کے قریب مکران کوسٹل ہائی وے پر ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے رکنا پڑا۔
ویسے بھی کراچی سے گوادر آتے ہوئے مسافر کوچز اورماڑہ کے قریب کھانے کے لئے رک جاتی ہیں جہاں ریسٹورنٹ کافی تعداد میں موجود ہیں۔
لسبیلہ انسانی ترقی کے حوالے سے بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ یہاں ایک گاؤں دوسرے گاؤں سے کافی فاصلے پر واقع ہے اور زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جہاں غربت، پسماندگی ہو اور تعلیم کی کمی ہو، وہاں چائلڈ لیبر کے شکار ہزاروں بچے ملیں گے۔ کیونکہ غربت اور شعور کی کمی کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات ناپید ہیں۔
جب مسافر ویگن کھانے کے لئے مذکورہ ہوٹل میں رکی، شام کے چار بج ہو چکے تھے کیونکہ راستے میں گڈانی موڑ کے مقام پر ٹریفک کی روانی کئی گھنٹوں سے متاثر تھی۔
اسی ہوٹل میں مسافر ویگن سے اترتے ہی ایک نئی کہانی میری منتظر تھی اور یہ کہانی چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کی ایک ایسی کہانی ہے کہ اس سے جڑی درجنوں کہانیاں اس علاقے میں ملتی ہیں۔
ہوٹل میں کئی چھوٹے بچے مسقبل کے سہانے خوابوں سے بے خبر ایک انجانی کیفیت سے دوچار تھے۔ میری پہلی ملاقات فیصل نامی ایک بچے سے ہوئی۔
8 سالہ فیصل نے بتایا؛ میں اسی ہوٹل میں دن بھر مزدوری کرتا ہوں اور روزانہ مجھے 20 روپے ملتے ہیں۔ اپنی بات آگے جاری رکھتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ والد کی بیماری کی وجہ سے میں کم عمری میں کام پر مجبور ہوں۔ میلے کچیلے کپڑے پہنے فیصل کے چہرے پر مایوسی کے تاثرات صاف عیاں تھے۔ وہ کھیل کود اور پڑھائی کی بجائے دن بھر ایک ہوٹل میں مزدوری کرنے پر مجبور تھا۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ملکی قانون کے تحت کم عمری کی مشقت ایک قانونی جرم ہے اور ملکی قانون بچوں کو بھاری بھرکم مزدوری کی اجازت نہیں دیتا۔
فیصل کی کہانی جاری تھی کہ ایک اور بچہ طارق میرے سامنے موجود تھا، طارق فیصل سے عمر میں شاید کچھ سال بڑا تھا اور اس کے بقول وہ ہوٹل میں برتن دھونے کا کام کرتا ہے اور اسے روزانہ 100 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔ طارق کے بقول اس کے والد وفات پا چکے ہیں اور محنت مزدوری کر کے گھر کے معاشی بوجھ کو وہی ہلکا کرتا ہے۔
مکران کوسٹل ہائی وے پر متعدد ایسے دیہات موجود ہیں جہاں آپ کو ان دیہاتوں اور گاؤں میں سکول اور صحت کے بنیادی مراکز تو نہیں ملیں گے البتہ ان علاقوں میں شادی ہال ضرور ہوں گے۔
چائلڈ لیبر کیا ہے؟
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق چائلڈ لیبر سے مراد ہے کہ 'ہر وہ مشقت ہے جو بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچاتی ہے اور انہیں ان کی فطری قابلیت اور عظمت سے محروم رکھتی ہے'۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 160 ملین بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور ان میں 84 فیصد بچوں کا تعلق ایشیا اور افریقہ کے ممالک سے ہے۔
بلوچستان حکومت نے 2016 میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا ہے جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچہ کہلاتا ہے۔
اس رپورٹ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کی تعداد زیادہ ان ممالک میں ہے جہاں معاشی ناہمواری، غربت اور بھوک و افلاس ہے کیونکہ ان ممالک میں معاشی ناہمواری کی وجہ سے کم عمر بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور کم عمری کی محنت مزدوری سے ناصرف ان کی جسمانی نشوونما متاثر ہو رہی ہے بلکہ وہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔
پاکستان لیبر سروے 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 10 سے 14 سال کی عمر تک کے 7.3 فیصد بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں، جبکہ ادارہ برائے شماریات کے مطابق 15 سے 19 سال کی عمر کے 4.9 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں۔
سینیئر صحافی شیما صدیقی نے بتایا کہ بلوچستان میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر بچے کانوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔ افغان رفیوجیز کی تعداد بلوچستان میں چونکہ زیادہ ہے اور ان کے زیادہ تر بچے بھی چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی سینیئر صحافی ربیعہ ارشد کہتی ہیں کہ چائلڈ لیبر پاکستان میں بہت عام ہے اور غریب لوگ اس کے شکار ہیں۔ ان کے مطابق چھوٹی عمر میں شادی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ اس حوالے سے اگر شوہر یا بیوی انتقال کر جاتے ہیں تو بچوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہونے کی وجہ سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر بچے امیر خاندانوں کے ہاں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بچوں کو گھروں میں مزدوری کے لئے رکھتے ہیں کیونکہ انہیں بالغ لوگوں پر اعتماد نہیں ہوتا ہے۔
ربیعہ ارشد کہتی ہیں کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ملک میں کئی ادارے موجود ہیں۔ پالیسی بناتے وقت بچوں کے لئے خوشگوار ماحول اور ٹیکنیکل اداروں میں ان کے داخلے کے لئے نرم پالیسی رکھی جائے کیونکہ قانون تو موجود ہے مگر قانون کو چائلڈ دوست بنانا ہوگا۔
شیما صدیقی نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چونکہ آؤٹ آف سکول بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ سکولوں میں داخل کیا جائے اور چائلڈ لیبر کے حوالے سے جو پالیسیاں موجود ہیں، ان پر من و عن عمل کیا جائے۔