افغانستان میں کم از کم 10 لاکھ بچے مزدوری کرتے ہوئے زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں آمدنی میں زبردست کمی ہوئی ہے اور لاکھوں افراد بھوک کے دہانے پر ہیں۔
چودہ سالہ اسد اللہ روزانہ 700 روپے تک کماتا ہے جب وہ کوئٹہ کی سڑکوں پر سبزیوں سے بھری لکڑی کی گاڑی کھینچتا ہے۔ اسد اللہ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے۔ اس کے والد، ہارون شدید بیماری کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں ہیں، جس کی وجہ سے اسد اللہ کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے گذشتہ سال سکول چھوڑنا پڑا۔
'پچھلے سال، میں سکول بھی جا رہا تھا اور کبھی کبھار کام بھی کرتا تھا'، اسد اللہ، جو آٹھویں جماعت میں تھا، نے دانش حسین لہڑی کو بتایا، 'لیکن اس سال مجھے ہر روز کام کرنا پڑتا ہے'۔
جو 10 لاکھ بچے افغانستان میں مزدوری کرتے ہیں اسد اللہ ان میں شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچے جوتے پالش کرتے ہیں، گاڑیاں دھوتے ہیں، سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں یا خطرناک کاموں جیسے کان کنی میں ملوث ہیں۔
پاکستان میں افغان پناہ گزین بچوں کی صورت حال بھی اسی طرح سنگین ہے۔ عدنان عارف جہانگیر، جو نیشنل کمیشن فار رائٹس آف چلڈرن (NCRC) کے اقلیتی رکن ہیں اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان (HRCP) سے وابستہ ہیں، نے بتایا کہ وہ بچوں کی مزدوری، تعلیم اور حقوق کے معاملات پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں میں بچوں کی مزدوری کے خاتمے کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔
'پاکستان میں بھی بچوں کی مزدوری کے خاتمے کے حوالے سے کوئی ایکٹ یا بل پاس نہیں کیا گیا ہے۔ اگر کوئی ایسا قانون موجود ہے بھی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جب ہم نے اپنے بچوں کے لیے قوانین نہیں بنائے، تو افغان پناہ گزینوں کے لیے ایسے قوانین کا سوچنا بھی ناممکن ہے'، عدنان نے بتایا۔
فاطمہ گل جن کے والد کئی سال پہلے فوت ہو چکے ہیں، مغربی شہر ہرات میں کچرے کے ڈھیروں میں سے فروخت کے قابل پلاسٹک اور دھات تلاش کرتی ہیں۔ ایک اچھے دن میں وہ تقریباً 40 افغانی روپے کماتی ہیں۔ جب ان کے خاندان کو انسانی امداد سے محروم رکھا گیا، تو فاطمہ، جو صرف 13 سال کی ہیں، کو اپنے خاندان کی بقا کے لیے سڑکوں پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
'گھر میں ہم چھ افراد ہیں'، فاطمہ نے بتایا۔ 'میں ہمارے گھریلو اخراجات پورے نہیں کر سکتی۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے'۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ان بچوں کی حالت زار کی بازگشت شہزاد ولیم نے بھی سنائی، جو بلوچستان سے HRCP کے رکن ہیں اور مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے ہجرت کر کے آئے افغان پناہ گزین پاکستان میں بے شمار مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) جیسی تنظیمیں ان بچوں کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور دیگر مسائل کے حل کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
'یہ تنظیمیں ناصرف افغان پناہ گزین بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہیں بلکہ انہیں ہنر بھی سکھا رہی ہیں'، شہزاد نے کہا۔ 'لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ایسے ہنر سکھائے جا رہے ہیں جن سے وہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں گے'۔
شہزاد ولیم نے زور دیا کہ بچے بچے ہوتے ہیں، چاہے وہ ہمارے ہوں یا افغانستان کے، اور تعلیم حاصل کرنا دونوں کا بنیادی حق ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر کوئی بچہ اپنی نوجوانی تک کام کر رہا ہے تو اسے بچوں کی مزدوری میں شمار کیا جاتا ہے۔
رحمت خان، جو کہ افغان بچوں کے حقوق کے ماہر ہیں، نے مزید کہا کہ اگر ہم ان بچوں کے مستقبل کو نظرانداز کرتے رہے تو ہم اپنے ملک کے مستقبل کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے دانش حسین لہڑی کو بتایا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 85 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو 2020 کے مقابلے میں 15 ملین افراد کا اضافہ ہے، تب افغانستان مغربی حمایت یافتہ انتظامیہ کے زیر حکومت تھا۔
پاکستان میں، گل محمد جو صوبہ بلوچستان میں ایک گاڑیوں کی مرمت کی دکان کے مالک ہیں، نے کہا کہ افغانی والدین، جو اپنے خاندانوں کو کھلانے کے لیے بے چین ہیں، اپنے بچوں کو کام پر بھیج رہے ہیں۔
'ہر روز، والدین میرے پاس آتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ کیا میں ان کے بچوں کو اپرنٹس کے طور پر لے سکتا ہوں'، گل محمد نے دانش حسین کو بتایا۔ 'اقتصادی صورت حال کی خرابی لوگوں کو اپنے بچوں کی تعلیم قربان کرنے پر مجبور کر رہی ہے'۔
جیسے جیسے صورت حال بگڑ رہی ہے، افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کو ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے، جہاں ان کے بچے ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو مشقت، کھوئے ہوئے مواقع اور ٹوٹے ہوئے خوابوں سے بھری ہوئی ہے۔