Get Alerts

5 جولائی، تاریخ کا وہ سیاہ باب جس نے ہمیں شدت پسندی کی آگ میں دھکیل دیا

5 جولائی، تاریخ کا وہ سیاہ باب جس نے ہمیں شدت پسندی کی آگ میں دھکیل دیا
جس طرح آج کے دور میں ہر آنے والے واقعہ کا شیخ رشید احمد صاحب کو پتہ ہوتا ہے، اسی طرح 5 جولائی کی کالی رات کا سب سے پہلے علم مولانا کوثر نیازی کو ہو چکا تھا۔ بقول کوثر نیازی انھوں نے تو اس رات اپنے بچوں کو ضروری ہدایات جاری کر دی تھیں، کہ میرے عزیز ہم وطنو والے آ رہے ہیں۔
شاعر عوام نے 5 جولائی 1977ء کی کالی رات کے متعلق کیا خوبصورت فرمایا ہے،

ہر محب وطن ذلیل ہوا
رات کا فاصلہ طویل ہوا
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی نام و داد پاتے رہے
رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی
رہبروں نے کیا کمی کی تھی
ایک بار اور ہم ہوئے تقسیم
ایک بار اور دل ہو دونیم
یہ فسانہ ہے پاسبانوں کا
چاق و چوبند نوجوانوں کا
سرحدوں کی نا پاسبانی کی
ہم سے ہی داد لی جوانی کی

ضیاء الحق مرحوم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں

اک نظر اپنی زندگی پر ڈال
اک نظر اپنے اردلی پر ڈال
فاصلہ خود ہی کر ذرا محسوس
یوں نا اسلام کا نکال جلوس
یہ زمیں تو ہے حسیں بےحد
حکمرانوں کی نیتیں ہیں بد
حکمراں جب تلک ہیں یہ بےدرد
اس زمیں کا چہرہ رہے گا زرد

5 جولائی 1977ء ہماری تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کے سائے ابھی تک ہم پر منڈلا رہے ہیں۔ معاشرہ جو مذہبی طور پر روادار تھا، جسے بھٹو مرحوم نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی حد تک مذہبی کرنا شروع کر دیا تھا، کیونکہ انکی حکومت بھی کارکردگی کے حوالے سے صرف خانہ پوری ہی کرنا جانتی تھی۔ اسے مرحوم ضیاء الحق نے اپنی حکمرانی اور انکل سام کی خوشنودی کے لئے شدت پسندی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔

حالات یہ ہیں کہ اب تک اس آگ میں بجھتے شعلے ٹمٹماتے نظر آتے ہیں اور ہمارے دشمن جب بھی ہوا مہیا کرتے ہیں ہمارے ملک میں اس آگ کی تپش محسوس کی جاسکتی ہے، حالیہ دنوں میں اس ہوا کا ایک جھونکا باغوں کے شہر لاہور میں محسوس کیا گیا۔ جو سرزمین صوفیاء کرام کی تعلیمات سے جڑی ہوئی تھی جس کی روایت، ثقافت، اور تہذیب و تمدن ان تعلیمات سے منسلک تھے۔ انھیں زبردستی مشرق وسطی کی قدامت پسندی کی طرف دھکیلا گیا کہ اب مشرق وسطی کے قدامت پسند، معتدل ہو گئے ہیں اور ہمارے ہاں فرقہ واریت کی آگ مزید دہک رہی ہے۔
5 جولائی ایک المیہ و سانحہ ہے جس پر کتابیں تو بہت سی لکھی گئی ہیں مگر ایک کتاب جس کا نام بھٹو کے آخری 323 دن از کرنل رفیع الدین ہمارے نصاب کا حصہ ہونی چاہیے یا کم از کم کالج کی سطح پر اسکا مطالعہ تمام طالبعلموں پر لازم قرار دینا چاہیے۔ اس کتاب کا حوالہ اس لئے بھی ضروری ہے، یہ ایک مقتدر حلقہ سے تعلق رکھنے والے صاحب نے لکھی ہے اور ہماری قوم کو بخوبی اس بات کا اندازہ ہے کہ مقتدر حلقہ کبھی غلط  بیانی سے کام نہیں لیتا کیونکہ وطن عزیز سے عہد وفا ان کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔

اس کے بعد ہمیں اس مکالمہ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے جس میں ہم اپنی نوجوان نسل کے سامنے سوال رکھ سکیں کہ اس غیرسیاسی مہم جوئی کے اصل مقاصد کیا تھے۔ کیونکہ نظام مصطفی تو آیا نہیں، اگر اس کا مقصد بھٹو صاحب سے جان چھڑوانا تھا وہ تو ایک منصفانہ انتخابات کروا کر بھی حاصل کیا جا سکتا تھا، اگر مقاصد انکل سام کی خوشنودی تھا تو کم از کم ان لوگوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے جنھوں نے ہمیں پرائی جنگ میں دھکیلا اور اب ہم چاہ کر بھی اس جنگ سے نہیں نکل پا رہے ایک نسل جہاد کا نصب العین لئے ختم ہو گئی اور ایک ابہام کا شکار ہے کہ میرا دین قدامت پسند ہے یا معتدل۔

کرنل رفیع الدین صاحب کو سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی حفاظت کے لئے فوج کی طرف سے ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جب دروغ بگردن راوی اس بات کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ قبر ایک اور مردے دو ہیں تو مطلب صاف تھا کہ انسان اپنے لئے تو کبھی موت کا انتخاب نہیں کرتا اس لئے بھٹو مرحوم کی زندگی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

قیدی کو نواب محمد احمد خان قصوری کے مبینہ قتل کی سزا بطور پھانسی سنائی گئی تھی، انھیں پنڈی کی سنٹرل جیل میں رکھا گیا تھا۔ اس جیل کا انتظام و انصرام کرنل رفیع الدین کے حوالہ تھا، نیز جیل کی حفاظت مکمل طور پر ان لوگوں کے اختیار میں تھی۔ کرنل صاحب کے چند مشاہدات غور طلب ہیں، ان کے مطابق کال کوٹھری یا جیل کا وہ علاقہ جہاں قیدی بھٹو کو رکھا گیا تھا اسکی تمام دیواریں اور چھتیں دوبارہ تعمیر کی گئیں تھی، کچھ فاصلہ پر فوجیوں کے کیمپ موجود تھے۔ 27 پنجاب ریجمنٹ کی بٹالین کرنل رفیع صاحب کی رہنمائی میں قیدی کی حفاظت پر معمور تھی۔ قیدی کی حرکات و سکنات کو مکمل نوٹ کیا جاتا تھا اور ان کی تمام باتیں ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ ممتاز ملک جو کہ ابتدائی دنوں میں ایس ایم ایل اے تھے نے کسی نجی محفل میں صرف اتنا فرمایا کہ کیا ضروری ہے کہ ہم قیدی کو پھانسی دیں کوئی معافی تلافی بھی تو ہو سکتی ہے انکا اگلے ہی دن تبادلہ کر دیا گیا۔

اس کے بعد راحت لطیف صاحب نے ملاقاتیوں کی تعداد انتہائی محدود کر دی۔ یہاں تک کہ ایک میجر صاحب جو قیدی کے گلے کا معائنہ کرنے آئے انکا کو بھی دوبارہ اس لئے نا بلایا گیا کہ دوران علاج انھوں نے قیدی سے ضرورت سے زیادہ بات چیت کر لی تھی۔

ان کے مطابق قیدی کو تین اپریل کو صرف سات گھنٹے پہلے مطلع کیا گیا کہ ان کی موت کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہے، اسی دوران قیدی کی زوجہ اور دختر سے اسکی ملاقات کروائی گئی اور ان کو کہا گیا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ہے، قیدی کو اس کے خاندان کے لوگوں سے جیل کی سلاخوں سے باہر ملاقات کی اجازت نا دی گئی۔ قیدی کی موت کو کالے گھوڑا یعنی black horse کا خفیہ نام دیا گیا۔ جب قیدی کو پھانسی دے دی گئی تو خفیہ اطلاعات تھیں کہ قیدی کی ماں کیونکہ ہندو تھی اس لئے قیدی کی برہنہ تصاویر لی جائیں تاکہ اس بات کا اطمینان کیا جا سکے کہ قیدی جسے بچپن میں نتھو رام کہتے تھے مکمل طور پر مسلمان ہے بھی کہ نہیں، کل کو کسی شخص کو پتا چل گیا کہ دنیا کی واحد اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کا حاکم غیر مسلم تھا۔

یہ مشاہدات جہاں بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں، وہاں اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ وقت بہت ستم ظریف ہے، آپ کے احسان مند لوگ احسان فراموشی کرتے کبھی دیر نہیں لگاتے، خوش فہمی و انا پرستی آپ کو لحد میں اتار دیتی ہے اس لئے بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کرنے چاہیں۔ دنیا اور وقت آپ کے ہونے نا ہونے سے عاری ہیں۔ شاہ کے وفادار ہی وعدہ معاف گواہ ہوتے ہیں۔ جب بھی میرٹ و کارکردگی کی بجائے ذاتی پسند، چاپلوسی و سفارش کو ترجیح دی جائے گی تو 1977ء کبھی 1999ء بن کر آئے گا یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ اور

آخر میں شاعر عوام کی نظم ان پاکستانیوں کے نام جنھوں نے 1977ء سے اب تب کسی نا کسی طرح اپنے پیاروں کو جہاد کے نام پر یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھویا ہے۔ ضیاء نام صرف علامت ہے یہاں نام ہر زمانہ کے لحاظ سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری

ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں

صحرا کو چمن بن کر گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا