اب بس کیجئے می لارڈ

اب بس کیجئے می لارڈ
گذشتہ پندرہ دنوں سے ملک میں قدرے سکون کی کیفیت تھی۔ کسی بیوروکریٹ، سرکاری ملازم یا سیاستدان کو عدالت میں بلا کر ذلیل نہیں کیا جا رہا تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات کسی ہسپتال یا سرکاری اداروں کے دورے کرنے میں مصروف تھے۔ اس کی وجہ عزت مآب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا بیرون ملک قیام تھا۔ جتنے دن وہ ماسکو میں قیام پذیر رہے وطن عزیز میں نہ تو جوڈیشیل ایکٹوازم دیکھنے کو ملا اور نہ ہی کسی متنازع خبر نے جنم لیا۔ جناب ثاقب نثار کے وطن پہنچنے کی دیر تھی کہ پھر سے وہی بے ہنگم اور اوٹ پٹانگ عدالتی ایکٹوازم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

مقدمہ چلائے بغیر ہی مجرم ٹھہرا دیا

پہلے عائشہ احد کیس کھولا گیا، پھر ملالہ یوسفزئی کے بارے میں متنازعہ بیان، شہباز شریف کو عدالت میں بلا کر عجیب و غریب ریمارکس کے ذریعے تذلیل اور شاید ذاتی انا کی تسکین، کڈنی ہسپتال کی تعمیر پر بے سروپا اعتراضات کہ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی اور پھر کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کی بے عزتی کرتے ہوئے انہیں کرپٹ قرار دینا اور بیرون ملک سفر نہ کرنے کی پابندی عائد کرنا کہ کہیں وہ ملک سے فرار نہ ہو جائے۔ یعنی مقدمہ چلائے بغیر ہی ایک شخص کو تقریباً مجرم ٹھہرا دیا گیا۔ ڈاکٹر سعید اختر ایک بے داغ اور انتہائی شاندار کرئیر کے حامل شخص ہیں۔ وہ ٹیکساس یونیورسٹی میں ہیلتھ سائنسز سیکٹر کے سربراہ رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا امریکہ کے ٹرانسپلانٹ سرجری کے سربراہ رہے ہیں۔ پاکستان میں شفا ہسپتال کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ 40 سے زائد تحقیقی مقالے اور آرٹیکلز لکھ چکے ہیں۔ نیویارک کی ایک یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ ایڈمنسٹریشن میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔



یہ نہ صرف خود اپنا مذاق آپ اڑوانے والی بات ہے بلکہ ایک انتہائی قابل شخص کی تذلیل بھی ہے

ایک ایسے انتہائی قابل شخص کی اہلیت یا سرکاری تنخواہ پر سوال اٹھانا اور بنا کسی ثبوت اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی باریکیوں کو جانے یہ ریمارکس دینا کہ انہوں نے ڈاکٹروں کو بھاری معاوضے پر لیور اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ کے ادارے میں نوکریوں پر بھرتی کیوں کیا، نہ صرف خود اپنا مذاق آپ اڑوانے والی بات ہے بلکہ ڈاکٹر سعید جیسے قابل شخص کی تذلیل اور تضحیک بھی ہے۔ ڈاکٹر سعید اختر اپنی مٹی کی محبت میں دنیا بھر کے اعلیٰ ترین عہدے اور آسائشیں چھوڑ کر پاکستان آیا اور اپنے وطن میں لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کی سہولیات غریبوں تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے شہباز شریف سے بیس ارب روپے اور سرکاری زمین لی اور دن رات ایک کر کے یہ ادارہ تعمیر کیا۔ آپ میڈیکل پروفیشن کے قابل ترین ڈاکٹروں یا ہونہار میڈیکل سٹوڈنٹ کو پاکستان سے باہر نوکریاں کر کے زندگی آسائشوں کے ساتھ گزارتے دیکھیں گے جبکہ ڈاکٹر سعید اختر جیسا شخص جو خود امریکہ میں دو ذاتی جہازوں کا مالک تھا سب کچھ تیاگ کر پاکستان میں امریکہ اور یورپ کی طرز کے جدید سہولیات سے مزین صحت کے ادارے تعمیر کرنا چاہتا ہے، اسے عدالتوں میں ذلیل ہوتا دیکھیں گے۔



جس بے رحمانہ انداز میں ڈاکٹر سعید کی تذلیل کی گئی ہے اس نے راقم کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ عزت مآب جناب چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے کچھ گزارشات کی جائیں۔

جناب چیف جسٹس نے آج ہی ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بادشاہت نہیں ہے اور ملک کو کوئی بادشاہوں کی طرح نہیں چلا سکتا۔ اس بات سے ہم سب سو فیصد متفق ہیں۔ لیکن محترم چیف جسٹس صاحب جس انداز سے آپ نے ملک کے تمام سویلین اداروں کو ٹیک اوور کرتے ہوئے آئے روز ان کے اعلیٰ افسران کو عدالتوں میں ذلیل کرنے کا کام شروع کیا ہے، کیا یہ کسی بادشاہت اور شاہانہ انداز سے کم ہے؟ صدیق الفاروق جیسے نفیس سیاستدان کو آپ نے عدالت میں طلب کر کے کہا کہ تمہاری شکل تو اخبار فروش جیسی لگتی ہے، تمہیں زکوٰۃ اور اوقاف کے ادارے کا چئیر مین کس نے بنایا؟ کیا دنیا کی کسی مہذب عدالت میں کوئی بھی جج کسی شخص کے ظاہری حلیے کو بنیاد بنا کر اس کی تذلیل کر سکتا ہے؟ پولیس افسران کو عدالتوں میں بلا کر آپ نے انہیں کہا کہ تم لوگوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔ سعد رفیق کو آپ نے کہا کہ انجام کیلئے تیار رہو۔ اس سے پہلے جامعات کے چانسلرز کو بلا کر آپ نے ان کی عزت نفس کا جنازہ نکال دیا۔ اس کے برعکس راؤ انوار آپ کے روبرو ہیرو کی طرح پیش ہوا۔ نہ تو اسے اس کی اوقات یاد دلانے کا خیال آپ کو آیا اور نہ ہی پلٹ کر آپ نے اس اجرتی قاتل کے کیس میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

راؤ انوار آرام کے مزے ہیں

راؤ انوار آرام سے اپنے گھر میں قیام پذیر ہے اور کسی بادشاہ کی طرح پیشیوں پر عدالتوں میں حاضر ہوتا ہے۔ چونکہ راؤ انوار کی پشت پر موجود قوتیں انتہائی بااختیار ہیں اس لئے آپ کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کے کیس کو خود سننے کی ہمت کرتے۔ پرویز مشرف کے کیس پر ہی اگر ایک سومو نوٹس آ جاتا تو ہم دل نادان کو تسلی دے کر بہلا پھسلا لیتے کہ چلیے انصاف کا دائرہ پھیلتے ہوئے تمام مجرموں کے گریبانوں تک پہنچ رہا ہے۔



علیم خان اور شیخ رشید کے مقدموں میں ایسی عدم دلچسپی کیوں؟

علیم خان کے زمینوں پر قبضے کا کیس ہو یا آپ کی ماتحت عدالت میں شیخ رشید کی نااہلی کا محفوظ شدہ فیصلہ، لاپتہ افراد کا کیس ہو یا ارسلان افتخار کی مبینہ کرپشن کا معاملہ، ان تمام کیسز میں آپ کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ کی آخر کوئی ٹھوس وجہ تو ہونی چاہیے۔ اس وقت صرف شریف خاندان کے خلاف اور پنجاب میں تعمیراتی اور فلاحی منصوبوں پر کیسز کھول کر اور باقی تینوں صوبوں کی جانب آنکھیں بند کر کے آپ دراصل خود ایک فریق بنے بیٹھے ہیں اور محض شریف خاندان سے مخاصمت میں پڑھے لکھے اور قابل افسران، ڈاکٹرز، معلموں اور بیوروکریٹس کو آئے روز معطل کر کے اور سخت ریمارکس پاس کر کے آپ نے ان تمام شعبہ جات کے افراد میں ایک بددلی اور مایوسی پھیلا دی ہے۔



اور پھر توہین عدالت

شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ آپ کے آئے روز سوموٹو نوٹسز اور تذلیل پر مبنی ریمارکس کے باعث وفاق اور پنجاب کی بیوروکریسی تقریباً مفلوج ہو چکی ہے۔ کیونکہ اب کوئی بھی افسر کسی قسم کا کام آپ کے خوف کے باعث نہیں کرتا۔ عدالت کے ایوان کی بلند ترین کرسی پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہرگز بھی نہیں ہے کہ آپ کسی کی بھی تضحیک کریں، کسی کو بھی معطل کریں اور کسی کو بھی بنا کسی ٹھوس ثبوت کے مجرم قرار دے دیں۔ اور پھر توہین عدالت کی آڑ لے کر خود کے کمزور فیصلوں یا رویے پر تنقید بھی نہ ہونے دیں۔

آپ نے اپنے عمل اور متنازع فیصلوں سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے



عزت نفس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بھی چیز نہیں ہوا کرتی اور بدقسمتی سے آپ روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر سعید اختر جیسے کئی قابل افراد کی عزت نفس کی تذلیل کرتے ہیں۔جب عدالتی فیصلوں کے بجائے ریمارکس بولیں اور ہر وقت وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پھر عدالتی فیصلے بے وقعت اور بے توقیر ہو جایا کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کا بنیادی کام قانون اور آئین کی تشریح ہے نہ کہ تحقیقاتی ادارہ بن کر چھان بین کرنے اور سزائیں سنانے کی۔ معاف کیجئے گا لیکن آپ نے اپنے عمل اور متنازع فیصلوں سے عدلیہ کی ساکھ کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس کا ازالہ کرنا آپ کے آنے والے مستقبل کے ہم منصب کے بس میں بھی نہیں ہو گا۔

اب بس کیجئے مائی لارڈ

اب بس کیجئے مائی لارڈ۔ اس ملک میں بے شمار افراد ایسے ہیں جو اپنے حصے کا کام کرنا جانتے ہیں انہیں اپنا کام کرنے دیجئے اور قانون کے نظام کو لوگوں کی تضحیک اور تذلیل کیلئے استعمال ہونے کے شکوک و شبہات کو اپنے فیصلوں سے دور کیجئے۔ اگر آپ خود چودہ لاکھ کے لگ بھگ تنخواہ سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں تو آپ کس قانون یا اخلاقیات کے تحت فارن کوالیفائڈ پروفیشنلز کی تنخواہوں پر اعتراضات اٹھا کر انہیں تنخواہیں سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا کہتے ہیں؟ آپ ایک مقبول سیاسی جماعت کے صدر شہباز شریف کو عدالت میں طلب کر کے کون سے قانون کے تحت یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے عوام سے کیا ہوا کوئی ایک بھی وعدہ پورا کیا؟ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ اس عمل کو انتقام اور پری پول رگنگ کا نام دیا جاتا ہے؟ آپ بے حد قابل احترام ہیں لیکن عوام،عوامی نمائندے اور پڑھے لکھے افراد بھی اتنے ہی قابل احترام اور عزت نفس کے مالک ہیں جتنا کہ آپ۔

کاش کہ ہماری وہ شفیق ماں آج زندہ ہوتی



ہمیں آج اپنی شفیق ماں عاصمہ جہانگیر کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ شاید اگر وہ آج زندہ ہوتی تو آپ کو قانونی زبان میں سمجھاتی کہ آپ نے وطن عزیز پر ایک جوڈیشیل مارشل لا نافذ کیا ہوا ہے اور سارے ملک کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر تو اب رہی نہیں جو بابنگ دہل قانون، آئین اور جمہوریت کی وکالت کرتے آپ کو سمجھا پاتی۔ اس لئے ہم آپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر منت کرتے ہیں کہ اس ملک پر رحم کھائیے۔ ڈاکٹر سعید اختر جیسے قابل اشخاص کی تذلیل بند کیجئے، سیاستدانوں کی اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے عوام پر چھوڑیے اور ان لاکھوں کیسز پر توجہ دیجئے جو آج بھی سماعت سے محروم التوا کا شکار فائلوں کے ڈھیر تلے دبے پڑے ہیں۔ اب بس کیجئے، مائ لارڈ کہ اب چشم تماشہ یہ کھیل دیکھ دیکھ کر اکتا چکی ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔