Get Alerts

عمران خان کو لگتا ہے دو ہفتوں میں جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت ہو جائے گی: صحافی عمران شفقت

عمران خان کو لگتا ہے دو ہفتوں میں جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت ہو جائے گی: صحافی عمران شفقت
عمران خان نے ایک ملنے والے کو بتایا کہ اگلے دو ہفتوں میں فوج میں بغاوت ہو جائے گی اور جنرل سید عاصم منیر کا کورٹ مارشل ہو گا۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عمران شفقت نے۔

حالیہ وی-لاگ میں 9 مئی کے واقعات سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے صحافی عمران شفقت کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان کے قریبی لوگوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف آئندہ 2 ہفتوں میں فوج کے اندر ہی سے بغاوت کا آغاز ہو جائے گا اور جنرل عاصم منیر کا کورٹ مارشل ہو گا۔

عمران شفقت کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے ان سے ملاقات کا احوال سناتے ہوئے یہ خبر دی ہے۔

عمران شفقت کے مطابق 9 مئی کے واقعات کے بعد صورت حال تو کچھ یوں ہے کہ عمران خان کے کئی سہولت کاروں نے ان پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے بھی 9 مئی سے پہلے تک خوب ڈنکے کی چوٹ پر عمران خان کو ریلیف پر ریلیف دیا جا رہا تھا تاہم 10 مئی سے حالات ان کے لیے بھی سازگار نہیں رہے اور اب ان کے لیے عمران خان کی کھلے عام مدد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ تاہم اس تمام معاملے میں یہ اندازے غلط ہیں کہ اب عمران خان کے حمایتی موجود نہیں۔

18 مارچ کو اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے موقع پر بھی جو کچھ ہوا اس میں بھی سی ایس پی افسران سمیت کافی بااثر افسر ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ متعلقہ حکام کی جانب سے ایس پی کا فون ٹیپ کیا گیا تھا اور اسلام آباد کے ایس پی کو شواہد کے ساتھ پکڑا گیا۔

اس سے قبل بھی عمران خان متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ انہیں اندر سے معلومات ملتی ہیں اور وہ اپنے خلاف کی جانے والی ہر حکمت عملی سے آگاہ ہیں۔

سید عمران شفقت نے کہا کہ 9 مئی کو بھی عمران خان کو ایک پولیس والے نے فون فراہم کیا جس کے ذریعے سے وہ مسرت جمشید چیمہ، اسلم اقبال اور حماد اظہر  کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان تمام کارروائیوں کی ویڈیوز بھی بنیں اور ٹیلی فون کالز بھی ٹیپ ہوئیں۔ واضح ہے کہ وہ تمام مواد عمران خان اور دیگر کے خلاف پراسیکیوشن میں استعمال کیا جائے گا۔ تاہم 9 مئی کو جب یہ لوگ رابطے میں تھے اور باہر جو کچھ ہو رہا تھا تو یہ لوگ بہت بڑی خوش فہمی کا شکار تھے۔ وہ لوگ جو ان کو فون دے رہے تھے، وہ جو ان کو مرسیڈیز میں بٹھا کر عدالت میں بلا رہے تھے کیونکہ کسی نے عمر عطاء بندیال کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ کسی طرح عمران خان کو رہا کروا دیں اور اس کے بعد جب وہ سڑک پر نکلیں گے تو پاکستان میں انقلاب آ چکا ہو گا۔ عاصم منیر کا تختہ الٹ چکا ہو گا۔

چیف جسٹس 'انقلاب' کی آرزو میں آخری پتّا بھی کھیل گئے

چونکہ بندیال صاحب کے پاس یہ آخری پتّا تھا اس لئے خان صاحب کے لیے وہ اسے بھی کھیل گئے۔ عمران خان کو عدالتی حکم پر پولیس گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔ معاملے کو دوبارہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقل کیا گیا اور اس کے بعد عمران خان کو ریلیف پہ ریلیف ملتا گیا۔ یہ سب کچھ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی منشا پر ہوتا رہا کیونکہ پاکستان کی چند اہم شخصیات کی جانب سے ان کو یہ بات باور کروائی گئی تھی کہ بس عمران خان کو نیب اور جیل کے چنگل سے نکال لیں اور جب وہ باہر آئیں گے تو عوام کا بپھرا ہوا سمندر امڈ آئے گا اور جو کسر 9 مئی کو رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہو جائے گی۔

جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چل رہا تھا اسی رات 12 بجے جنرل عاصم منیر پاکستان واپس آ گئے تھے۔ اس کے بعد بہت واضح پیغامات کا تبادلہ ہوا جس سے بہت سی شخصیات کے حوصلے ٹوٹ گئے اور عمر عطاء بندیال کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی کہ اب پہلے کی طرح کھلے عام عمران خان کے ساتھ شانہ بشانہ نہیں چل سکتے اور ان کی اقتدار میں واپسی کے لئے مزید مدد نہیں فراہم کر سکتے۔

اس کے باوجود بیوروکریسی میں کچھ لوگ تاحال عمران خان کی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے بہت کمزور کیس فائل کیے

9 مئی کو ہونے والے واقعات سے متعلق لاہور سیف سٹی ہاؤس میں اہم اجلاس ہوا جس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ کچھ کالز ٹیپ ہوئی ہیں جن میں عمران خان نے خواتین کو ہدایت دی تھی کہ ویڈیوز بنا کر بھیجیں اور پولیس پر الزام لگائیں کہ جیل میں انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی جی پنجاب سے پوچھا کہ آپ نے اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ جیل میں قید خواتین سے موبائل فون لے لیے گئے ہیں، کیمرے لگا دیے ہیں اور خواتین پولیس اہلکار ان کی نگرانی کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے سوال کیا کہ کیس کتنے مضبوط ہیں؟ پراسیکیوشن پنجاب کے سیکرٹری عثمان کو بلایا گیا اور تفصیلات پوچھی گئیں۔ پراسیکیوشن سیکرٹری نے پہلے تو اصرار کیا کہ وہ ان تمام تر تفصیلات سے وزیر اعظم کو تنہائی میں آگاہ کریں گے لیکن وزیر اعظم کی جانب سے ہدایت ملنے پر پراسیکیوشن سیکرٹری نے بتایا کہ یہ تمام کیس 'مذاق' ہیں۔ انہوں نے بریفنگ میں بتایا کہ کیسز کے لیے جیوفینسگ ڈیٹا کی تفصیلات ایف آئی آر کے مندرجات سے مختلف ہیں۔ ڈیٹا کچھ اور کہہ رہا ہے جبکہ ایف آئی آرز کچھ اور کہہ رہی ہیں۔ عدالت نے فیصلہ ایف آئی آر کی بنیاد پر سنانا ہے۔ پولیس نے بہت کمزور کیس بنائے ہیں۔ ان ایف آئی آرز کے متن کو دیکھیں تو ان میں کوئی الزام ہی نہیں ہے۔ وکیل نے چند سیکنڈز میں ملزم کو بری کروا لینا ہے۔ خدیجہ شاہ، عمران خان، یاسمین راشد، اعجاز چودھری، محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال پر انہی کیسز کی بنیاد پر آرمی ایکٹ 1952 کے تحت مقدمے چلنے ہیں۔

بااثر ملزمان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا؟

اس کیس کو پاکستان کے عوام، فوج، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم تمام دیکھ رہے ہیں کہ کیا خدیجہ شاہ اور جنرل سعد کے داماد عمران محبوب کے ساتھ  حکومت، پراسیکیوشن یا فوج کوئی رعایت تو نہیں برتے گی؟ کیس کمزور ہے یا مضبوط، ان کو سزا ہو گی یا نہیں؟ فوجی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں سے امتیازی سلوک تو نہیں ہو گا؟ طاقتوروں کے ساتھ اور سلوک اور عام شہریوں کے ساتھ الگ سلوک تو نہیں روا رکھا جائے گا؟

تفصیلات جاننے کے بعد وزیر اعظم نے آئی جی پنجاب کی کلاس لینی شروع کر دی۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ کیسز انہوں نے خود تو نہیں بنائے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی چھوٹا موٹا کیس نہیں ہے اور ان تمام کیسز کی نگرانی تو بطور آئی جی آپ ہی نے کرنی ہے۔ ایک سپاہی کی کارکردگی کا بھی جواب آئی جی نے ہی دینا ہوتا ہے۔

اس کے بعد میٹنگ کینسل ہو گئی لیکن صرف وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو بھیجا گیا، باقی تمام شرکا کو روک لیا گیا۔ ویڈیو لنک پر متعلقہ اضلاع کے ڈی پی اوز کو اجلاس میں بلایا گیا۔ پنجاب میں احتجاج کے لیے تقریباً 26 ہزار لوگ باہر نکلے تھے جن میں سے 4 سے 7 ہزار تک لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 26 ہزار لوگوں کا ڈیٹا جیو فینسنگ کے ذریعے سرکاری اداروں کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ اس میں سے 471 وہ ہیں جن کی توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے واقعات میں شناخت ہو چکی ہے اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جائے گا۔ ان میں سے بھی صرف 41 ایسے ہیں جن کو ابھی تک فوج نےطلب کیا ہے اور ان کی حوالگی مانگی ہے۔

پولیس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں

آئی پنجاب نے تمام ڈی پی اوز کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ ریاست کی ساکھ کا مسئلہ ہے اور تمام ڈی پی اوز کی کارکردگی اس معاملے پر تسلی بخش نہیں۔

یہ وہ تمام لوگ تھے جو اب بھی پس پردہ عمران خان کی حمایت اور سہولت کاری کر رہے ہیں لیکن زیادہ وقت تک ایسا نہیں چلے گا۔

عمران خان خود الجھن کا شکار ہیں اور  پاکستان کی انتظامیہ میں موجود بہت سے لوگ ان کی اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں۔ عمران خان اس خوش فہمی میں ہیں کہ جنرل عاصم منیر کا تختہ الٹنے والا ہے۔ عمران خان کو حقائق کا پتا ہے اور نا ہی فوجی تنظیم کا۔ ان کی ابھی تسلی نہیں ہوئی اور وہ بڑے افسران سے احمقانہ کام کروائیں گے جن میں سول، پولیس اور انتظامیہ شامل ہو گی۔ 176 بڑے چھوٹے عہدوں پر مامور فوجی ہیں جن کو عمران خان صاحب کی وجہ سے کورٹ مارشل کی انکوائری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔