یہ 1990 کی دہائی کی شروعات تھی جب عمران خان کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے ایک سال بعد کراچی میں کلفٹن پل کے اس پار والی برگر کلاس یا پھر ملک کے بڑے شہروں میں جماعت اسلامی کے ونگ قومی شباب ملی کے جلسوں میں اچانک مشہور ہونے لگے تھے۔ ان کی لکھی کتابیں ملک کے ایئرپورٹوں اور فائیو یا فور سٹار ہوٹلوں پر کتابوں کی دکانوں میں بھی فروخت ہونے لگی تھیں۔ پتہ نہیں انہوں نے خود لکھی تھیں یا ان کا کوئی غیباتی یا گھوسٹ لکھاری تھا۔ 'غیرت مند مسلمان' اور 'انڈس جرنی: اے پرسنل ویو آف عمران خان' وغیرہ۔ گلاسی کاغذ پر چھپی کافی ٹیبل کتابیں۔
میں انہی دنوں کلفٹن پل کے اس پار رہنے والی دنیا سے سینکڑوں میل پرے دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر میانوالی گیا تھا۔ وہاں بھی ان دنوں عمران خان بہت ہی مقبول تھا اور عطاء اللہ خان نیازی کے اس گیت؛ 'قمیض تیڈی کالی تے سوہنے پُھلاں والی، بھاویں وسیں تو ولیت اساں کرنی نئیں رعیت، تیکوں لے کے جانا اے میانوالی' کے ساتھ ساتھ وہاں ایک اور لوک گیت بھی مشہور ہوا تھا؛ 'منڈا میانوالی دا پٹھان لگدا'۔ میں پتہ نہیں کیوں ان دونوں گیتوں کو سمجھتا ہوں کہ یہ شاید عمران خان پر بنائے گئے ہیں۔ شاید۔ لیکن میانوالی میں عمران سے لوگوں کی محبت کافی غیر معمولی تھی۔ کرکٹ سٹار سے بھی زیادہ۔ میانوالی والے عمران خان کو ' عمران خان نیازی' کہتے تھے لیکن یہی لوگ ان دنوں عیسیٰ خیل کے عطاء اللہ خان کے عطاء اللہ خان نیازی کہلوانے کے خلاف تھے۔
کلفٹن پل کے اس پار رہنے والی کئی معرکتہ الآرا خواتین کی زبانی میں نے عمران خان سے متعلق کئی منفی مثبت قصے سنے۔ ان میں سے ایک خاتون کو تو عمران خان نے ایک دور میں پروپوز بھی کیا تھا لیکن اس معرکتہ الآرا خاتون نے اس پروپوزل کو مسترد کر دیا تھا۔ ایسے تمام قصوں کا تعلق کرکٹ اور سیاست سے نہیں۔
پھر اچانک انگریزی جریدوں کے سرورق پر کہانیاں بھی عمران خان پر چھپنے لگیں۔ کیا ہیرالڈ اور کیا نیوزلائن۔ لاہور اور کراچی کے پوش علاقوں کی دیواروں اور 'آغاز' جیسی سپر مارکیٹوں کے باہر بھی خان کے پوسٹر چسپاں ہونے لگے۔ جبکہ باقی بڑے شہروں کی دیواریں اور پل 'ظالمو قاضی آ رہا ہے' سے سیاہ ہونے لگی تھیں۔
میں کراچی میں نیوزلائن کا رپورٹر تھا جب مئی 1994 کی ایک دوپہر لاہور کے ناصر باغ میں ایک جلسے کو رپورٹ کرنے گیا تھا (ہم نیوزلائن کے تینوں رپورٹر ملک بھر میں جا کر رپورٹنگ کرتے تھے)۔ اس جلسے میں پہلی بار عمران خان کی سیاست میں باقاعدہ لانچنگ ہو رہی تھی۔ اس جلسے میں سٹیج پر جو بزرگان ملت اور زعما براجمان تھے، ان میں آئی ایس آئی کے تازہ سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل، 1965 کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم، جمعیت علمائے پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل کے ایم اظہر اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد بھی شامل تھے۔ ابھی ناصر باغ کوئی دو حصے بھی نہیں بھرا تھا لیکن 'قومی شباب ملی' کے نغمے تھے کہ انہوں نے 'کام کو چُکیا ہویا' تھا۔ ابھی ڈی جے بٹ اور گلو بٹ نہیں پیدا ہوئے تھے۔
مجھے ناصر باغ میں ذوالفقار بھٹو کے جلسے یاد آئے۔ خاص طور پر اس کا ایک جلسہ جب وہ سابقہ سوویت یونین جا رہا تھا۔ اس مشہور جلسے میں اس نے بڑے غلام علی خان کی گائی ہوئی غزل کا یہ مصرعہ دہرایا تھا؛ 'لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے'۔ پھر اس نے کہا تھا؛ 'یہ قضا سرمایہ داروں کو لے جائے گی۔ یہ قضا سہگل اور ولیکا کو لے جائے گی۔ جاگیرداروں کو لے جائے گی'۔
1997 پاکستان میں انتخابات کا سال تھا اور اسی سال فروری میں ہونے والے انتخابات میں قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد، جنرل حمید گل کے دست شفقت اور شباب ملی کے نغموں کے باوجود عمران خان بری طرح ہار گیا تھا۔ لیکن 1993 کے انتخابات کے نتائج میں دوسری بار اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو کو بہت ہی عجیب اور خوفناک مخالفت کا سامنا تھا۔
ایک جانب اس کا پرانا اور جانا پہچانا مخالف جنرل ریٹائرڈ حمید گل تھا تو دوسری طرف کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا سگا بھائی مرتضیٰ بھٹو تھا۔ ویسے یہ وہی سال تھے جب جنرل (ر) حمید گل اب ملک کے پریس کلبوں میں جا کر خطاب کرنے لگے تھے۔ انہوں نے راولپنڈی پریس کلب میں بھی خطاب کیا تھا اور وہاں موجود صحافیوں میں میں بھی شامل تھا۔ میں نے اپنے سوال میں ان سے پوچھا تھا کہ کیا ایم کیو ایم ان کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ہونے والے دنوں میں بنوائی گئی تھی؟ تو ان کا جواب تھا؛ 'تحريکیں جاسوس ایجنسیاں نہیں بنایا کرتیں، یہ لوگوں کے دلوں میں بنتی ہیں'۔
سال 1995 کے کسی شمارے میں 'نیوزلائن' نے اپنی کور سٹوری یا سرورق کہانی ملک میں ٹیکس دہندگان و نادہندگان پر کی تھی کہ ملک میں کون کون سی شخصیات کتنا اِنکم ٹیکس دے رہی ہیں یا نہیں دے رہیں۔ نیوزلائن کی اس خاص رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں صرف تین شخصیات تھیں جو اپنا ٹیکس باقاعدہ دے رہی تھیں اور وہ یہ تھیں؛ پہلے نمبر پر مشہور وکیل خالد اسحاق جو صرف اپنی قانون کی کتابوں پر 58 لاکھ روپے سالانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، دوسری شخصیت عمران خان تھی اور تیسری مرتضیٰ بھٹو جو اپنا ٹیکس باقاعدگی سے ادا کر رہے تھے۔ وگرنہ ان دنوں نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی برائے نام اور چند لاکھ ہی ٹیکس دے رہے تھے اور کئی بڑی شخصیات نے محض چند ہزار یا سراسر صفر اِنکم ٹیکس ادا کیا ہوا تھا۔
انہی سالوں میں ایک طرف ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں حقیقی اور مجازی یعنی ایم کیو ایم (الطاف) اور فرقہ ورانہ تنظیموں اور جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں پولیس نے کراچی کو قتل گاہ بنایا ہوا تھا تو دوسری طرف فوج کے سینیئر اور مڈل رینک کے کچھ ایسے افسران پکڑے گئے تھے جنہوں نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کی سازش کی تھی جس کے مطابق انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنانا تھا۔ انہی دنوں میں کراچی میں ہفت روزہ 'تکبیر' کا مدیر صلاح الدین بھی قتل ہوا تھا اور کراچی کی گلی گلی سے بوریوں میں بند لاشیں مل رہی تھیں۔
انہی دنوں قتل کی دھمکیاں ملنے پر عبدالستار ایدھی ملک چھوڑ کر برطانیہ چلا گیا تھا۔ ملک چھوڑنے سے قبل عبدالستار ایدھی نے کراچی میں پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ ان سے ان کے کراچی میں میٹھا در ایدھی مرکز کے صدر دفتر ملنے آئے اور ان کو بینظیر بھٹو کی حکومت ہٹانے میں ان کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ جب ایدھی صاحب نے ان سے معذرت کی تو پھر انہیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ بات عبدالستار ایدھی نے اپنی خودنوشت 'اندھوں کو آئینہ' میں بھی بیان کی ہے جن کے ساتھ میٹھا در مرکز میں ملاقات کرنے والی شخصیت انہوں نے عمران خان بتائی ہے۔ کہتے ہیں عبدالستار ایدھی کی یہ کتاب تہمینہ درانی نے لکھی ہے تو یہاں اہم سوال یہ ہے کہ تہمینہ درانی کی اپنی کتاب 'مائی فیوڈل لارڈ' کس نے لکھی ہے؟ خیر۔
عمران خان کو حالات نے ایک کرکٹ ستارے سے پاکستان کی سیاست کا ہیرو یا پھر اینٹی ہیرو بنایا یا ان کو کسی فیکٹری میں بنایا گیا یا پھر واقعی 'غیباتی' وتوں نے انہیں بنایا؟
برطانوی مصنف اور تاریخ دان ولیم ڈالرمپل نے برصغیر کی سیاست پر ایک کتاب 'دی ایج آف کالی' کے نام سے تحریر کی ہے اور اس میں ایک پورا باب عمران خان کے پروفائل پر مبنی ہے یا عمران خان پر ہے۔ اپنی کتاب کے اس باب میں ولیم ڈالرمپل نے لکھا ہے کہ عمران خان اسے ایک مرتبہ اپنے گاؤں کے نزدیک ایک بابا کی کٹیا میں لے کر گیا تھا۔ یہ وہی بابا جی تھے جن سے عمران خان اپنا ہر میچ شروع کرنے سے پہلے رجوع کرتے تھے کہ جو میچ وہ کھیلنے جا رہے ہیں وہ جیتیں گے کہ ہاریں گے؟ میچ کھیلیں یا نہیں؟ اس بابے کی کٹیا کے اندر دیوار پر فوجی آمر ضیاء الحق کی تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔
عمران خان نے جب تحریک انصاف شروع کی تو وہ تب سے کئی بار نیویارک بھی آیا۔ باقی دنیا میں تارکین وطن پاکستانیوں کی طرح عمران خان نیویارک کے تارکین وطن پاکستانیوں میں بھی مقبول ہیں۔ بلکہ حال ہی میں پاکستانی ڈاکٹر و دیگر دولت مند پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کچھ امریکی شاہراہوں پر لگائے جانے والے ان بل بورڈز اشتہارات پر خرچ کیے ہیں جو پاکستان میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگوں کے خلاف حکومتی اور ریاستی کارروائی کے خلاف بنائے گئے ہیں جن کا عنوان ہے؛ 'پاکستان میں فاشزم روکی جائے'۔
تحریک انصاف نے بہت سارے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا، جن میں ملک کے نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہیں جو یوں بھی پاکستان کی اکثریت ہیں۔ ان کے لئے گویا عمران خان کشش ثقل بن گئے۔
عمران خان کے 'تبدیلی آئی ہے' والے نعرے نے جہاں معراج محمد خان اور ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے لوگوں کو پارٹی کے اندر کھینچا تو وہیں عمران خان کی حکومت برطرف ہونے کے بعد ایاز امیر جیسے کالم نگاروں کی ہمدردیاں بھی عمران خان کے ساتھ شامل ہو گئیں۔ ایاز امیر جنہوں نے ماضی میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا؛ 'ساری زندگی عمران خان ایک ہی کام تو کرتے رہے ہیں اور وہ ہے دو ٹانگوں کے بیچ کھیلنا'۔
عمران خان سیاست میں داخل ہونے سے پہلے بھی امریکہ کے دوروں پر آئے تھے جب وہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کیلئے پاکستان میں قوالی اور کلاسیکل موسیقی کے مائسٹرو نصرت فتح علی خان کے کونسرٹس کے وسیلے سے فنڈز جمع کر رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر سے شوکت خانم اسپتال کے لئے فنڈز جمع کرنے میں نصرت فتح علی خان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس خیر کے کام میں اپنے کونسرٹس کا نصرت فتح علی خان نے کوئی معاوضہ بھی طلب نہیں کیا تھا۔
نیویارک کے سینٹرل پارک میں بھی شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ کیلئے ایک بہت بڑا کونسرٹ نصرت فتح علی خان کا ہوا تھا جسے کروانے میں ایک کلیدی کردار سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا بھی تھا جو ان دنوں نیویارک میں سٹی بنک میں نہایت اہم عہدے پر تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کر کے حکومت قائم کی تو مشرف کابینہ میں شوکت عزیز کو وزیر خزانہ یا مشیر خزانہ مقرر کرنے کی سفارش عمران خان نے بھی کی تھی۔
اسی طرح شوکت عزیز دوسرا پاکستانی تھا جس نے امریکہ میں رہنے والے کئی دولت مند یا نو دولتیے تارکین وطن پاکستانیوں کے مابین یہ دوڑ پیدا کی کہ وہ بھی معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح وزیر اعظم یا وزیر بن سکتے ہیں۔ لیکن شوکت عزیز کے قریبی حلقے جانتے ہیں کہ اس اچھی براڈ کاسٹنگ طرز کی کوالٹی والی آواز اور شستہ انگریزی اور اردو بولنے والے شوکت عزیز نے وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے میں اپنی جیب سے ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کیا اور وہ جھٹ سے قومی اسمبلی کی نشست پر بھی چنوایا گیا تھا۔
عمران خان جب تحریک انصاف قائم کرنے کے بعد پہلی بار 2008 میں نیویارک کے دورے پر آئے تو پاکستانی علاقے کونی آئی لینڈ ایونیو میں ایک مقامی ریستوران میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں سے زیادہ مقامی پاکستانی جمع تھے اور ان سے زیادہ کرکٹ کے متعلق سوالات پوچھ رہے تھے۔ اس کانفرنس میں ماضی قریب تک پاکستان کے کراچی سے مشہور تحقیقی صحافی غلام حسنین بھی موجود تھے۔ اس سے قبل مشرف کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد انہیں جبری طور پر اٹھایا گیا تھا۔
اس دورے کے دوران عمران خان نے ایشیا سوسائٹی سے بھی ایک خطاب کیا تھا۔ بول ان کے یہ تھے؛ 'مغرب کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے بھلا'۔ ایشیا سوسائٹی کے سامعین کو عمران خان نے بتایا تھا کہ 'میں قبائلی علاقوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں وزیرستان کے علاقے وانا میں بھی رہا ہوں۔ ڈرون حملے مسئلے کا حل نہیں۔ ڈرون حملوں میں جن بے گناہ لوگوں کے گھر والے ہلاک ہوتے ہیں وہ پھر انتقام کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور طالبان بن جاتے ہیں'۔ اس کے بعد عمران خان کو طالبان خان کہا جانے لگا۔
ایک مرتبہ انہوں نے احمدیوں کے حق میں بھی بات کی تھی جو بعد میں ان کو تردید کی صورت میں واپس لینی پڑی تھی۔
ان کی حکومت کے دوران کرتار پور کا راستہ کھلنے کا کریڈٹ دنیا بھر کے سکھ مرد، عورتیں اور بچے عمران خان کو دیتے ہیں اور بالغ سکھ عمران خان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے۔
تحریک انصاف کے شروعاتی دنوں میں عمران خان کے ایک امریکی دورے کے دوران نیویارک میں میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ انٹرویو کے دوران میں نے عمران خان سے ولیم ڈالرمپل کی کتاب میں درج واقعے کے مطابق اپنی کٹیا میں ضیاء الحق کا فوٹو لگا کر رکھنے والے بابے سے ملاقات اور میچ کھیلنے سے پہلے اس بابے سے رجوع کرنے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا؛ ' ولیم ڈالرمپل جھوٹ بولتا ہے۔ بات اس کے برعکس تھی۔ دراصل ولیم ڈالرمپل مجھے اس بابے کے پاس لے گیا تھا، یہ پوچھنے کیلئے کہ ان کی منگنی ایک خاص لڑکی کے ساتھ ہو گی کہ نہیں؟'
ٹیگز: اوورسیز پاکستانیز, پاکستان تحریک انصاف, پروجیکٹ عمران خان, جماعت اسلامی, جنرل پرویز مشرف, جنرل حمید گل, جنرل کے ایم اظہر, شباب ملّی, شوکت خانم اسپتال, عبدالستار ایدھی, عمران خان, عمران خان کا سیاسی سفر, عمران خان کی لانچنگ, قاضی حسین احمد, محترمہ بینظیر بھٹو شہید, مرتضیٰ بھٹو, نصرت فتح علی خان, وزیر اعظم شوکت عزیز, ولیم ڈالرمپل