شوکت خانم اسپتال کے عطیات کی رقوم پی ٹی آئی پارٹی فنڈ کے لیے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دی نیوز میں فخر درانی کی شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیرملکی فنڈنگ کیس کے حوالے سے اسپتال کو عطیہ دینے والے اس بات سے لاعلم تھے کہ عطیات پی ٹی آئی کو منتقل ہوئے، بعض ڈونرز نے سوال کیا ہے کہ عطیات شوکت خانم کے لئے دیئے، پارٹی فنڈز کے طور پر کیوں استعمال کیا؟ جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارٹی ریکارڈ سے حقائق کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ عطیات کس مقصد کے لئے دیئے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو پیش کی گئی ان افراد کی فہرست جنہوں نے پارٹی کو عطیات فراہم کیے تھے کی صداقت مشکوک ہو گئی ہے کیوں کہ ان میں سے بعض نے استفسار کیا ہے کہ ان کے عطیات ، سیاسی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کیے گئے۔
پی ٹی آئی کے مطابق فراہم کردہ فہرست میں شامل افراد نے 4 لاکھ 60 ہزار ڈالرز پارٹی فنڈز میں دیئے۔ تاہم، ان میں سے تقریباً 35 فیصد افراد نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو عطیات نہیں دیئے تھے بلکہ ان کے عطیات شوکت خانم اسپتال کے لیے تھے۔ جب کہ صرف 27 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی فنڈز کے لیے عطیات دیئے تھے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے سابق رکن اکبر ایس بابر کی پٹیشن پر پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کیس میں سماعت کررہی ہے۔ پی ٹی آئی نے پارٹی کے بینک اکاؤنٹس اور غیرملکی کمپنیوں کی فہرست کے ساتھ 1414 عطیات فراہم کرنے والوں کے نام بھی جمع کیے ہیں جنہوں نے 2013 میں پارٹی فنڈز کے لیے 467320 ڈالرز عطیہ کیے۔
دی نیوز نے اس حوالے سے دو ہفتے طویل تحقیقات کی ہیں تاکہ فہرست میں شامل پارٹی کو فنڈز دینے والے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔ اس مقصد کے لیے 80 ڈونرز کو سیمپل کے طور پر منتخب کیا گیا۔
دی نیوز نے 40 افراد سے رابطہ کیا جنہوں نے 1 ہزار ڈالرز یا اس سے زائد کے عطیات دیئے تھے جب کہ 40 ایسے افراد کو منتخب کیا گیا جنہوں نے 500 ڈالرز یا زائد کے عطیات دیئے تھے۔
ان 80 عطیات دینے والوں میں 29 نے دی نیوز کے سوالات کے جوابات دیئے۔ صرف 8 افراد (27.5 فیصد) نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو سیاسی مقاصد کے لیے عطیات دیئے تھے کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ عمران خان تبدیلی لاسکتے ہیں۔
10 افراد نے (34.5 فیصد) نے کہا کہ انہوں نے رقم شوکت خانم اسپتال کے لیے دی تھی کیوں کہ وہ باقاعدگی سے ایسا کرتے رہے ہیں۔ جب کہ 7 افراد (24 فیصد) کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں ہے۔ جب کہ باقی ماندہ 4 افراد (13.7 فیصد) نے جواب دینے سے انکار کردیا۔
شوکت خانم اسپتال کے لیے عطیات دینے والوں میں سے بعض افراد کو حیرت ہوئی کہ ان کے عطیات کی رقوم کو سیاسی مقاصد میں کیوں استعمال کیا گیا۔ 2017 میں پی ٹی آئی نے امریکا میں رکن سازی کی مہم شروع کی تھی اور امریکا میں پارٹی ورکرز کو ممبر شپ کارڈز بھجوائے تھے۔
یہ رکن سازی کی مہم ادائیگی کے عیوض تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا ہی ایک رکن رانا واصف ہے جو کہ لاہور کا رہائشی ہے اور وہ اس وقت تک کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا تھا۔ رانا واصف کو 120 ڈالرز کی رسید اور ممبرشپ کارڈ کے ساتھ ای میل بھیجی گئی۔
اس ای میل کے مطابق رانا واصف نے امریکا سے پارٹی فنڈز میں 120 ڈالرز دیئے تھے، جس کی وجہ سے اسے پارٹی رکنیت دی گئی۔ رانا واصف نجی شعبے میں کام کرتے ہیں اور وہ باقاعدگی سے شوکت خانم اسپتال میں عطیات دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، کسی نے ان کے رابطوں کی تفصیلات شوکت خانم اسپتال سے حاصل کیں اور اسے پی ٹی آئی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے یہ بات پی ٹی آئی کے امریکا اور پاکستان کے عہدیداروں کو بھی بتائی تھی۔ بعد ازاں جب اس نمائندے نے پی ٹی آئی کے اس وقت کے سیکرٹری خزانہ سردار اظہر طارق سے پوچھی تو انہوں نے تصدیق کی کہ رانا واصف کی شکایت حقیقت پر مبنی تھی۔ فہرست میں شامل اعظم خان اور ان کی اہلیہ نغمہ خان نے پارٹی فنڈ میں 1 ہزار ڈالرز دیئے لیکن نغمہ خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے رقم نہیں دی تھی بلکہ وہ رقم شوکت خانم اسپتال کے لیے دی گئی تھی۔
انہوں نے اپنی ای میل میں پوچھا ہے کہ اگر ان کی رقم کسی اور مقصد کے لیے استعمال کی گئی ہے تو وہ اس بارے میں جاننا چاہیں گی۔ اسی طرح جنید صدیقی اور حامد ایچ صدیقی نے پارٹی فنڈز میں 3 ہزار ڈالرز دیئے لیکن جنید صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کے والد پاکستان میں رہائش پذیر ہیں زیادہ امکان یہی ہے کہ اگر انہوں نے اور ان کے والد نے رقم دی ہے تو وہ شوکت خانم اسپتال کو دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سپورٹرز نہیں ہیں اور نہ ہی کسی پارٹی سے ان کا تعلق ہے۔ جانچ پڑتال کمیٹی رپورٹ کے مطابق خرم رشید نے پی ٹی آئی کو 500 ڈالرز کا عطیہ دیا۔ تاہم، دی نیوز کو اپنے تحریری جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے رقم شوکت خانم اسپتال کو دی تھی۔ وہ پارٹی کے رکن نہیں ہیں۔ اسی طرح نوید عابدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے رقم شوکت خانم اسپتال کے لیے شکاگو میں دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے حامی ضرور ہیں لیکن انہیں یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو کبھی کوئی چیک دیا ہو۔ اسی طرح ایک ڈونر کامران نیازی بھی ہیں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے غالباً اسپتال کے لیے عطیہ دیا تھا لیکن کب اور کتنا عطیہ دیا تھا یہ انہیں یاد نہیں تھا۔ تاہم، افراز حیدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکا میں پی ٹی آئی فنڈنگ کے لیے 1 ہزار ڈالرز دیئے تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ شوکت خانم اسپتال کو بھی عطیات دیتے ہیں، لیکن مذکورہ رقم انہوں نے پارٹی فنڈنگ کے لیے دی تھی۔ ایک اور ڈونر زاہد حسین ایوب نے پی ٹی آئی کو 500 ڈالرز عطیہ کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے ڈیلاس میں ابتدائی کارکنان میں سے ہیں وہ ہمیشہ سے ہی پی ٹی آئی امریکا کو فنڈنگ کرتے رہے ہیں۔ جب کہ پارٹی رہنمائوں کے فضائی ٹکٹس بھی وہ دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے نمل کالج کے لیے بھی عطیات دیئے ہیں۔ عطیات دینے والوں میں مسز شازیہ ناصر بھی شامل ہیں جن کا کہنا تھا کہ ہم نے 1 ہزار ڈالرز پی ٹی آئی کو اپنی مرضی سے دیئے تھے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ شوکت خانم کےعطیات سیاسی مقاصد میں استعمال کیے گئے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی ڈونر ایل ڈی سی پر دستخط کرتا ہے تو چیک میں واضح لکھا ہوتا ہے کہ وہ رقم کس مقصد کے لیے دی جارہی ہے۔ جنہوں نے 1 ہزار ڈالرز یا زائد رقوم دی ہے وہ بذریقہ چیکس دی گئی ہے۔ اس کی تصدیق چیکس سے ہوسکتی ہے۔
وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس نمائندے نے عطیات فراہم کرنے والوں کے نام فراہم کیے تو وہ ریکارڈ سے تصدیق کرسکتے ہیں کہ انہوں نے رقوم اسپتال کے لیے دیں یا پارٹی فنڈز کے لیے دیں۔ دی نیوز نے جب پی ٹی آئی کے سابق چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سوالات کا جواب نہیں دے سکتے۔
انہوں نے اس کے لیے پارٹی کے سیکرٹری خزانہ سراج احمد سے رابطے کا کہا۔ جب دی نیوز نے سراج احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بات نہیں کی کیوں کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف تھے۔
انہوں نے بعد میں کال کرنے کا کہا۔ تاہم، بعدازاں انہیں بارہا فون کیا گیا مگر انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ ایڈیٹرز نوٹ: شوکت خانم ملک کی بہترین این جی اوز میں سے ایک ہے جو فلاحی کام کررہی ہے اور جس سے بڑی تعداد میں عوام مستفید ہورہی ہے لہٰذا اس کی معاونت جاری رہنی چاہیئے۔ حقائق پر مبنی مذکورہ اسٹوری کا مقصد ہرگز اس ادارے کے فلاحی امور کو سبوتاژ کرنا نہیں ہے۔
تاہم شوکت خانم کی جانب سے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال اور ریسرچ سینٹر کو موصول ہونے والے تمام عطیات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور تمام عطیہ دہندگان کو ایک باضابطہ رسید جاری کی جاتی ہے جس کا پتہ ہر انفرادی عطیہ پر لگایا جا سکتا ہے۔
شوکت خانم اسپتال انتظامیہ نے جاری اپنے بیان میں کہا کہ ہم پاکستان کے اندر اور بیرون ملک سے عطیات وصول کرتے ہیں، باضابطہ طور پر کئی ممالک اور دائرہ اختیار میں ایک خیراتی ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال کے تمام عطیات کے ریکارڈ کو برقرار رکھا جاتا ہے اور پاکستان اور بیرون ملک ہمارے تمام مالیاتی ریکارڈ کا آزاد فریقین کے ذریعے آڈٹ کیا جاتا ہے تاکہ تمام قابل اطلاق مقامی ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ رقوم کسی تیسرے فریق کی طرف موڑ دی گئی ہیں، بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔