کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن پر شریک میڈیا چینلز خود کرونا کی نرسریاں بن چکے ہیں۔ انکے دفاتر میں متعدد افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں رپورٹرز، ایڈیٹرز، پروڈیوسرز، کیمرا مین، ڈی ایس این جی سٹاف سمیت دیگر تکنیکی عملہ شامل ہے۔ تاہم اس بارے میں ناظرین کو کسی چینل پر ایک ٹکر بھی چلتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔
یہی معاملہ دنیا نیوز کا ہے جس کے لاہور میں واقع ہیڈ کوارٹر میں کیمرا مینز،این ایل ایز، ڈرائیورز، ایچ آر ڈیپارٹمنٹ اور صحافیوں سمیت 35 سے زائد ملازمین کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وقت کرونا وائرس کا گڑھ بن چکنے والا دنیا نیوز کا یہ دفتر ایبٹ روڈ لاہور پر پی ٹی وی کے دفتر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر قلعہ گجر سنگھ سے متصل ہے۔ جو کہ بذات خود ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔
نیا دور نے 27 اپریل کو خبر دی تھی کہ دنیا نیوز کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں جواد نامی ایچ آر اہلکار میں کرونا کی تصدیق ہوئی تھی۔ تاہم اس کے باوجود سوائے اسکے کہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو بند کیا گیا باقی دفتر جوں کا توں جاری رہا۔ چینل کے صحافیوں نے اپنے محکمہ جات کے سربراہان سے پورے سٹاف کے ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ بھی کیا تاہم اس حوالے سے دنیا چینل کی انتظامیہ نے خاص دلچسپی نہیں لی۔ جس کے بعد آخر کار بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت ایچ او ڈیز سمیت ایچ آر میں کام کرنے والے ملازمین کے کرونا کے ٹیسٹ کرائے گئے جس حوالے سے 29 اپریل کو نیا دور دوبارہ خبر دی کہ 40 افراد کا کرونا وائرس ٹیسٹ بھی کیا گیا، جن میں سے مزید 10 ملازمین میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مزید 10 ملازمین میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد دنیا نیوز کے ہیڈ آفس میں کام کرنے والے تمام ملازمین تشویش میں مبتلا ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کے غیر معمولی اقدامات نہیں کیے جا رہے اور دفتر میں سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔ دنیا نیوز میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے پر نیا دور کو دنیا چینل ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ جب دفتر میں کرونا وائرس سے متاثر ملازمین کی موجودگی کا معاملہ شروع ہوا تو ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں رش کم کرنے کے لئے الگ الگ دنوں پر ملازمین کو بلانے کی تجویز بھی زیر غور آئی، لیکن چینل کے منتظمین نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کینٹین بھی معمول کے مطابق چلتی رہی تھی۔
اس صورتحال کے بعد بھی دنیا نیوز انتظامیہ نے نہ تو چینل بند کیا نہ ہی سٹاف کی تعداد میں کمی کی۔ دنیا نیوز کے ایک رپورٹر نے نیا دور کو بتایا کہ ان پر فیلڈ میں جا کر ایز لائیو یا لائیو کرنے کی شرط لازم ہے اور اس میں کوئی گنجائش نہیں۔
صورتحال بگڑنے پر دنیا نیوز نے اپنے سٹاف میں تو کوئی خاطر خواہ کمی نہ کی اور نہ ہی اپنے خرچ پر کسی پرائیویٹ لیب سے سٹاف کا ٹیسٹ کرانے کا انتظام کیا بلکہ اپنے صحافتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے سرکاری لیبز سے ہی سٹاف کے مرحلہ وار ٹیسٹ کرائے۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی کوئی ٹارگٹڈ ٹیسٹنگ نہیں بلکہ رینڈم ٹیسٹنگ تھی۔
اب صورتحال یہاں پر آن پہنچی ہے کہ ٹیسٹ کے نتائج آنے کے بعد اب تک 37 ملازمین میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ ابھی پورے دفتر کے ملازمین کی کل تعداد کے 40 فیصد کے ہی ٹیسٹ ہوئے ہیں جبکہ باقی ٹیسٹ ابھی ہونا ہیں۔ جبکہ دنیا نیوز کے ڈائریکٹر ایچ آر کے بھی کرونا میں مبتلا ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم دنیا نیوز نے اسکی تصدیق نہیں کی ہے۔
اس پیش رفت کے باوجود کسی بھی صحافی یا ٹیکنیکل سٹاف کو چھٹی نہیں دی جا رہی۔ ملازمین کو جان کے لالے پڑے ہیں لیکن ذرائع کے مطابق چھٹی مانگنے والے ملازمین کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
دنیا نیوز کے لوکل چینل لاہور نیوز کے نیوز روم سٹاف میں سے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے ساتھ ہی کام کرنے والے این ایل ای پروڈوکشن ٹیم کے رکن میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی وہ اس سے پہلے تک دفتر آرہا تھا اسی طرح سینٹرل ڈیسک پر موجود صحافی بھی کرونا کا شکار ہوگیا جب کہ اس کے ساتھ ہم سب کام کرنے والے اسی معمول کے مطابق دفتر آنے پر مجبور ہیں۔ ہماری اپنی جانیں تو خطرے میں ہیں ہی ہم اپنے بیوی بچوں اور پھر پوری کمیونٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ ہمارا جو استحصال ہونا ہے وہ ہو رہا ہے لیکن ہم لاہور شہر میں وائرس پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔
دنیا نیوز کے سینٹرل اسائنمنٹ ڈیسک پر موجود لاہورکے سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ اگر ایک گلی سے ایک بھی تصدیق شدہ کیس نکل آئے تو ہم بریکنگ پر بریکنگ کا 'پھٹا' چلاتے ہیں تاہم عوام کو باخبر رکھنے کے دعویدار ہم صحافی اپنے ادارے میں ہی 30 سے زائد کیسز کا ایک ٹکر نہیں چلا سکتے، چھٹی لینا تو دور کی بات ہے۔
دوسری جانب یہ ضلعی انتظامیہ کی بھی نا اہلی ہے۔ ڈی سی آفس لاہور ذرائع کے مطابق ڈی سی لاہور دانش افضال اس صورتحال سے مکمل طور پر با خبر ہیں تاہم وہ خاموش ہیں۔ ڈی سی آفس ترجمان سے بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ بھی باعث تشویش ہے کہ دنیا نیوز سمیت لاہور کے دیگر نیوز چینلز میں کرونا وائرس کے متعدد کیسز کے حوالے سے وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد بھی با خبر ہیں تاہم انکی جانب سے کوئی ایکشن سامنے نہیں آرہا ۔ اس ساری صورتحال میں دنیا نیوز میں کام کرنے والے صحافی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت کے حوالے سے شدید تشویش کا شکار ہیں۔ اور انکا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف خود کے لئے بلکہ کمیونٹی کے لئے تھریٹ بن رہے ہیں۔ صورتحال پر بات کرنے والے کی نوکری خطرے میں ہیں جبکہ کئی صحافی کرونا کے خطرے اور انتظامی بے حسی کے باعث مستعفی ہو کر معاشی خود کشی کر رہے ہیں۔
طبی حلقوں نے حکومت سے فوری طور پر چینلز انتظامیہ کے خلاف ایکشن لینے اور کرونا کے حوالے سے چینلز کی انسپیکشن کی اپیل کی ہے تاکہ شہر میں وائرس پھیلنے سے بچایا جا سکے۔