آپ بات چیت کرتے رہیں، ہم نہ مداخلت کریں گے نہ ہدایات دیں گے: چیف جسٹس

آپ بات چیت کرتے رہیں، ہم نہ مداخلت کریں گے نہ ہدایات دیں گے: چیف جسٹس
انتخابات کیس سے متعلق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کردیں۔ ہم  نہ مداخلت کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے۔ آپ بات چیت کرتے رہیں لیکن عدالت نے آئین پر عمل کرنا ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا فیصلہ موجود ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے۔ آج جمعہ ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کردیا جائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست پرسماعت کررہا ہے۔ بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت فریقین کے وکلا اور سیاسی رہنما بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ مذاکرات میں فریقین کے نامزد ممبران نے شرکت کی۔ مذاکراتی کمیٹی نے 5 اجلاس کئے۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں میں 78 فیصد اور سرکلر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا جبکہ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمیں علم ہے کہ ملکی معیشت 2017 سے بہتر پوزیشن میں نہیں۔ پاور سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ 2022 کے سیلاب نے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان کیا۔ ملکی مودجودہ معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ اس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ بجٹ  کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے۔ بجٹ صرف قومی اسمبلی ہی پاس کر سکتی ہے۔ اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا۔ بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے۔ اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑرہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈزکے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کیلئے آئین4 ماہ کا وقت دیتا ہے۔ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دینگے،کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا ردکیا؟آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا ’ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں‘۔

فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ مداخلت کے بغیر معاملات حل کئے جا سکتے ہیں اس لیے مزید وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا رپورٹ وزیر خزانہ کے دستخط کے ساتھ جمع ہوئی ہے، سیاسی مسائل کو سیاسی قیادت حل کرے۔ لیکن موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچنے کی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی حکومت اس وقت بہت اہم ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں۔ ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہو سکتی۔ مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے۔ سیاسی نہیں۔ عدالت سیاسی معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔ اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے۔ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔ عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے۔ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں۔ آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔ کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔ آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کانکتہ اٹھایا، حکومت کی دلچسپی نہیں تھی۔جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا۔ انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے 14مئی کو انتخابات کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔ تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اپنے حکم پر عملدرآمد کرواتے ہوئے فیصلہ نمٹادے۔حکومت نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔ فاروق نائیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔

لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب اور محترمہ بینظیر کی شہادت کے باعث انتخابات میں تاخیر ہوئی۔ اگر حکومت نے کوئی قانونی نکتہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے۔

سعد رفیق نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے۔ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں۔ دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کیلئے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔ مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے۔ مذاکرات جاری رکھنے چاہیئیں۔یہ میری تجویز ہے۔ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہو رہی ہے۔اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی۔ عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سیکیورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نیک نیتی دکھانے کیلئے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے۔ سیکیورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی مگر اکتوبر تک سیکیورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی۔ صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔ بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ خواجہ صاحب آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے۔ اپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیئے۔ امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر اپ کا اتفاق رائے ہو جائے۔ اللہ نے امتحان مقرر کیا ہے تو ہمارے ساتھ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

رہنما تحریک انصاف شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ پرانا مؤقف دہرایا ہے۔ اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں مگر حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آرہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں۔حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا لیکن اسے سن لیا۔ پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔ رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ ملک کو آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف مذاکرات چاہتی ہے یا نہیں؟ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ تحریک انصاف مذاکرات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آ جائیں جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ ہم مذاکرات کر رہے ہیں یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں۔

وکیل درخواست گزار شاہ خاور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست آچکی ہے۔ حکومت کو بھی نظرثانی دائرکرنی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان کو ویڈیولنک پر لے لیا جائے۔ عمران خان اور وزیراعظم کو سننے کے بعد حل جلد نکلے گا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ عمران خان اور شہباز شریف کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ہم صرف کالے کوٹ والوں کو سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نظرثانی درخواست کا حق رکھتا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان کو ویڈیولنک پر لینے کی استدعا مسترد کردی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات والے فیصلے پر نظرثانی کا وقت اب گزر چکا ہے۔

سپریم کورٹ میں وکلاء اور سیاسی رہنماؤں کے دلائل کے بعد ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی درخواست پر آج کی سماعت مکمل ہوگئی ہے۔

حکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالت سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کردی۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میری درخواست ہے سپریم کورٹ کوئی ہدایت یا حکم نہ دے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں۔ ہم آپ لوگوں کو سننے کا اختیار تو  رکھتے ہیں۔

سعدرفیق کا کہنا تھا کہ گزارش ہے کہ انتخابات کے لیے مذاکرات پربریک آئی لیکن بریک اپ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے۔ آج جمعہ ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کردیا جائے۔ مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔

عدالت نےگزشتہ روز 27 اپریل کو ہونے والی آخری سماعت کا تحریری حکم جاری کیا تھا۔

تین صحفات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی کوئی ہدایت نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سےمذاکرات ان کی اپنی کوشش ہے۔ سپریم کورٹ کا14مئی کوانتخابات کرانےکاحکم برقرار ہے۔