تربت یونیورسٹی؛ ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر نتائج روک لیے گئے، طلبہ کا احتجاج

تربت یونیورسٹی؛ ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر نتائج روک لیے گئے، طلبہ کا احتجاج
یونیورسٹی آف تربت نے ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر بعض طلبہ کے نتائج روک لیے۔ طلبہ و طالبات نے یونیورسٹی کی ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے رزلٹ روکنے کے خلاف پرامن مظاہرہ کیا اور کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ مسئلے کو حل کرنے میں مصروف عمل نہ ہوئی تو ہمارا لائحہ عمل سخت ہوگا۔

تربت کے رہائشی طالب علم سعید بلوچ نے بتایا کہ درحقیقت تربت یونیورسٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب متحرک طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن اور دیگر سرگرمیوں کو بے نقاب کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں ڈسپلن کے نام پر دھمکیاں دی تھیں۔ اس کے باوجود طلبہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ نتیجتاً انتظامیہ نے انہی طلبہ کے امتحانی نتائج روک دیے۔ اسی بنا پر طلبہ و طالبات نے پُرامن احتجاج کا راستہ اپنا کر کلاسز کا باقاعدہ بائیکاٹ کیا ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے احتجاج کو ختم کرنے کیلئے یونیورسٹی ہی بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

یونیورسٹی آف تربت کے مطابق کچھ طلبہ یونیورسٹی آف تربت کے تعلیمی ماحول کو مسلسل خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ سٹوڈنٹس بار بار یونیورسٹی کی بسوں کو روکتے ہیں، چھوٹی موٹی باتوں پر یونیورسٹی کا مین گیٹ بند کر کے اساتذہ، سٹاف اور دیگر سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی کے اندر یا باہر جانے نہیں دیتے اور حتی کہ کلاس رومز سے اساتذہ کو نکالتے ہیں جس سے یونیورسٹی میں نظم و ضبط کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ نے ان سٹوڈنٹس کو بار ہا سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ غیر ضروری معاملات پر یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو خراب نہ کریں لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی۔

یونیورسٹی آف تربت کے مطابق یونیورسٹی مین گیٹ کے سامنے یونیورسٹی اساتذہ بالخصوص فیمیل سٹاف کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور مظاہرین تشدد پر اتر آئے جس سے ایک گاڑی کو نقصان پہنچا۔ اسی باعث مزید پرتشدد واقعات کو روکنے کے لئے یونیورسٹی کو 5 مئی سے تا حکم ثانی بند کر دیا گیا ہے۔ طلبہ اور والدین کو مزید پیش رفت پر مطلع کیا جائے گا۔

یونیورسٹی آف تربت کے مطابق پچھلے سال دسمبر میں یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ ان طلبہ کے والدین یا سرپرستوں سے بات کی جائے گی۔ 20 میں سے 13 سٹوڈنٹس کے والدین یا سرپرست یونیورسٹی آئے اور ان کا معاملہ حل ہو گیا ہے لیکن 7 سٹوڈنٹس اپنے والدین یا سرپرست لانے کے بجائے یونیورسٹی کے تعلیمی معاملات میں مسلسل خلل ڈال رہے ہیں۔

طلبہ نے بتایا کہ یونیورسٹی آف تربت کی جانب سے گاڑی کو نقصان پہنچانے کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ آس پاس سی سی ٹی وی کیمرے لگ چکے ہیں جن سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ سٹوڈنٹس یا کسی اور نے گاڑی کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون کے رہنما باہوٹ چنگیز نے بتایا کہ ایسے تعلیم دشمن اقدام کے خلاف طلبہ کسی صورت خاموش نہیں رہیں گے۔ 24 گھنٹے کے اندر اندر طلبہ کے رزلٹ کا اعلان نہ کیا گیا تو آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا جس میں ادارہ کو تباہی سے دوچار کرنے والے نااہل وی سی سمیت حواریوں کو یونیورسٹی سے فارغ کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ بی ایس او اور بی ایس او پجار نے طلبہ کے احتجاج کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔

یونیورسٹی آف تربت کے طالب علم یاسر بیبگر نے بتایا کہ بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے پر ہمیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہمارے رزلٹ نہیں دیے گئے تو ہم کلاسز کا بائیکاٹ کریں گے یا بھوک ہڑتالی کیمپ لگائیں گے۔

دیگر طلبہ نے بتایا کہ رزلٹ روک کر سٹوڈنٹس کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ یاد رہے کہ تاحال 7 سٹوڈنٹس کے رزلٹ یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس ہیں جنہیں سٹوڈنس کو نہیں دیا جا رہا ہے جبکہ بیش تر سٹوڈنٹس کے رزلٹ انہیں دیے جا چکے ہیں۔

طلبہ نے بتایا کہ گزشتہ ماہ یونیورسٹی آف تربت کے مین گیٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ میں طلبہ کے ساتھ مذاکرات میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ احتجاج ختم ہونے کے بعد ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سٹوڈنٹس کو اکسایا نہیں جائے گا اور یونیورسٹی آف تربت کے وفد نے ان نکات کو تسلیم کر لیا تھا۔

آل پارٹیز کیچ کے کنوینر خالد ولید سیفی نے کہا کہ تربت یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ساتھ معاملات گفت و شنید سے حل کرے، یونیورسٹی بند کرنے کا اعلان غیر مناسب عمل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی نائب صدر وارث دشتی نے بتایا کہ یونیورسٹی آف تربت کو بند کرنے کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ کیچ کے باشعور عوام تربت یونیورسٹی کو تباہ ہونے اور طالب علموں کے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور طالب علموں کے مستقبل کو تبائی سے بچایا جائے۔ آل پارٹیز کیچ اور سول سوسائٹی سٹوڈنٹس کے موجودہ مسئلہ پر اہم کردار ادا کریں جو طلبہ اور یونیورسٹی آف تربت کیلئے مثبت عمل ثابت ہو گا۔

اسی طرح بی ایس او تربت زون کے رہنما کرم خان بلوچ نے کہا کہ میں بحیثیت طلبہ رہنما یونیورسٹی آف تربت کے اس رویے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یونیورسٹی آف تربت کا یہ رویہ تعلیم دشمن پالیسی ہے۔ احتجاج کرنا ہر سٹوڈنٹ کا بنیادی حق ہے اور میں ان سٹوڈنٹس کی حمایت کرتا ہوں۔ اگر ہمیں الائنس بنانے کی ضرورت ہوئی تو ہم الائنس کی شکل اختیار کریں گے۔

واضح رہے کہ بی ایس ایجوکیشن ساتویں سمسٹر کے طلبہ نے اپنی کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کر دیا ہے اور جب تک تربت یونیورسٹی کے متحرک طلبہ کے رزلٹ کا اعلان نہیں کیا جائیگا تو بی ایس ایجوکیشن ساتویں سمسٹر کے طلبہ کلاسز کے بائیکاٹ کے ساتھ مین گیٹ پر احتجاج جاری رکھیں گے۔

اس سے پیش تر بھی یونیورسٹی آف تربت کے طلبہ و طالبات رواں سال متعدد مرتبہ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، بھوک ہڑتالی کیمپ، احتجاجی ریلی، ٹوکن سٹرائیک اور یونیورسٹی آف تربت کے مین گیٹ بند کر کے دھرنا دے چکے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ گذشتہ احتجاجی مظاہرے سٹوڈنٹس نے اپنے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے کیے تھے جن میں پانی کی عدم دستیابی، انٹرنیٹ سروس کی بندش، ہاسٹل میں کھانے کی کمی، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، بجلی کی بندش اور دیگر مختلف مسائل کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

پچھلے احتجاجوں کی پاداش میں یونیورسٹی کی ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر امتحان کے دن نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

شاہ میر مسعود کا تعلق بلوچستان سے ہے۔