چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات سے مسلسل 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل اعلیٰ سطحی ملاقات کی تفصیلات باہر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان خبروں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دگرگوں ہوتی معیشت کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کے لئے مقتدر حلقے ایک بھاری بھرکم ایجنڈا تشکیل دینے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کا نیا منصوبہ جسے نیا ڈاکٹرائن کہا جا رہا ہے، اس کے تحت ملاقات میں متعدد اہم نوعیت کے معاملات پر بحث مباحثہ کیا گیا جن میں سے بیش تر معاملات ملکی معیشت سے جڑے ہیں۔ پاکستان کی معاشی بحالی سے متعلق امید اور رجائیت کا پیغام دینے کے لئے آرمی چیف نے اس اجلاس میں بھی اپنے مخصوص انداز میں قرآنی آیات کے حوالے دیے۔
'پاکستان جی 20 ممالک میں شامل ہو سکتا ہے'
باخبر ذرائع وثوق سے بتاتے ہیں کہ مذکورہ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس امید کا اظہار کیا کہ معدنی اور قدرتی وسائل کے وسیع ذخیرے سے مالا مال ہمارا ملک جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ آرمی چیف نے اس امید کا اظہار کیا کہ معیشت کی بحالی میں ملک کی نوجوان نسل مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی اسی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال یا اس سے کم ہے۔
ادارہ جاتی معاشی اصلاحات
آرمی چیف نے مبینہ طور پر معیشت کو فعال کرنے میں ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ غیر رسمی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے اور ہر طرح کے 'گرے' زون کو ختم کرنے کی ضرورت سے متعلق بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے واضح انداز میں نشاندہی کی کہ محصولات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور معیشت کو استحکام بخشنے کے لئے تمام معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
حاضرین کے مطابق آرمی چیف نے اشارہ دیا کہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ادارہ جاتی اصلاحات لانے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جا رہی ہے۔ ریاست کی ملکیت میں چلنے والے اداروں کے مستقبل سے متعلق اہم ترین سوال پر آرمی چیف نے عندیہ دیا کہ ایسے سرکاری ادارے جو خسارے میں چل رہے ہیں ان کی نجکاری زیر غور ہے۔
اندرونی ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بہت جلد کم از کم اجرت میں بنیادی تبدیلی کی تجویز بھی پیش کی جائے گی۔ اس کے مطابق پنجاب میں نئے ملازمین کی کم از کم ماہانہ اجرت بڑھا کر 32 ہزار روپے کی جا سکتی ہے۔ آرمی چیف نے کاروباری برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ منصفانہ اجرت اور فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے سے معاشرے کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
'معیشت بحالی کی راہ میں حائل تمام رکارٹوں کو ہٹائیں گے'
اعلیٰ سطحی اجلاس کا اہم ترین موضوع خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے لیے متعین کیے گئے سٹریٹجک کردار پر زور دینا تھا۔ اقتصادی بحالی کی اشد ضرورت کے تحت تشکیل دی گئی کونسل کی نئی باڈی کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے اور فوجی فیصلہ سازی اور جمہوری طرز حکمرانی کے مابین توازن قائم کرتے ہوئے افسر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو اقتصادی بحالی کے لیے نہایت اہم قرار دیا گیا اور بہت سے حاضرین نے تصدیق کی ہے کہ اس کونسل کا ہدف ہے کہ ایسی تمام رکاوٹیں جو غیر ملکی سرمایہ کاری کے پاکستان آنے کی راہ میں حائل ہیں انہیں ختم کیا جائے، بلڈوز کر دیا جائے اور نظرانداز کیا جائے۔
اعلیٰ فوجی قیادت نوکرشاہی کی نااہلیوں اور سرخ فیتے کے کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے متعلق پرعزم نظر آتی ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدام کے تحت بیرون ملک سے آنے والی 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور غیر ملکی ذخائر پر آرمی چیف نظر جمائے ہوئے ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس پرجوش ہدف کے حصول کے لئے ٹائم فریم کیا مقرر کیا گیا ہے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ایک حصے کے طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ اگرچہ مذکورہ خطے سے متعلق معاملات پر آرمی چیف نے اپنی مہارت دکھانے سے احتراز برتا تاہم اطلاع ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت کو پھر سے متحرک کر سکتی ہے۔
ملاقات میں چینی اور ڈالر کی سمگلنگ کا اہم ترین معاملہ بھی زیر بحث آیا جسے روکنا معاشی بحالی کے لئے بہت ضروری خیال کیا جا رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں آرمی چیف نے غیر محفوظ سرحدوں کی نگرانی یقینی بناتے ہوئے سمگلنگ کے دھندے پر ہاتھ ڈالنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
بوتل نئی مگر شراب پرانی؛ کیا فوج قربانی دینے کے لیے تیار ہے؟
جیسا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت معاشی بحالی پر زور ڈال رہی ہے، عام آدمی یہ سوچ کر ڈر رہا ہے کہ کہیں یہ وہی پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر تو نہیں پیش کی جا رہی۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی جب ' باجوہ ڈاکٹرائن' نے تزویراتی گہرائی کی دہائیوں پرانی پالیسی پر انحصار کم کر کے جیو پولیٹکس کے بجائے جیو اکنامکس کو ترجیح دینے کی بات کی تھی۔ اس کا نتیجہ ہائبرڈ گورننس کے ناکام ماڈل اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں کھولنے میں ناکامی حاصل کرنے کی صورت میں برآمد ہوا۔
تاہم منیر ڈاکٹرائن ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کی معیشت ایسی گراوٹ سے دوچار ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ روپے کی قدر میں آزادانہ کمی اور کمر توڑ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جبکہ عظیم الشان منصوبے پیش کیے جا چکے ہیں تو اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی معنی خیز اصلاح تب تک نہیں ہو سکتی جب تک فوج بذات خود مالی اور خاص طور پر سیاسی چھوٹ دینے پر تیار نہیں ہو جاتی۔
جہاں غیر رسمی معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا محصولات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے، وہیں جائیداد پر ٹیکس عائد کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ریئل سٹیٹ سمیت رینٹ پر چلنے والی بیش تر صنعتیں ٹیکس کی کم شرح سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مسلح افواج نے بذات خود ریئل سٹیٹ کے بڑے بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں، خاص طور پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، لیکن حقیقی اصلاحات لانے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جائیداد پر جارحانہ انداز میں ٹیکس عائد کیا جائے اور یہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے ایف بی آر کو اختیارات تفویض کیے جائیں۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی لانا، پنشن سکیموں پر نئے سرے سے غور کرنا اور دفاعی اخراجات کو محدود کرنا ایسے معاملات ہیں جہاں مالی وسائل کی سمجھداری پر مبنی تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے فوج کی مراعات میں کمی لانا پڑے گی۔
اسی طرح معاشی بحالی کے لئے سیاسی استحکام بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پچھلی دہائی کو سراسر عدم استحکام کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بلامقابلہ کنٹرول اور طاقت حاصل کرنے کے لئے فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ تبدیلی کے معاشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک میں ایک مستحکم حکومت موجود ہو، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوج پاکستان کی سیاست سے دوری اختیار کرے۔ گورننس کا ہائبرڈ ماڈل اپنے ڈیزائن کے لحاظ سے ہی اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس میں سول ملٹری تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے کنٹرول کو لے لیجئے، جو اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت اور فوج کے مابین تنازعہ کا باعث بن گیا۔ مشترکہ ملکیت اور ممکنہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی سمت کے لیے سویلین حکومت اور فوج کے مابین ایک بے مثالی توازن قائم کرنے کی ضرورت ہو گی۔ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور 'سرخ فیتہ' کلچر
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آنے کا معاملہ غیر یقینی ہے، کیونکہ ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ سرمایہ کاری کس شکل میں پاکستان آئے گی۔ معیشت کے پیداواری شعبوں خاص طور پر صنعتی مینوفیکچرنگ میں ہونے والی سرمایہ کاری ترقی کے لئے اہم ہو گی تاہم بڑھتی انتہاپسندی، سیاسی عدم استحکام، علاقائی لحاظ سے غیر مسابقتی توانائی کی لاگت اور بنیادی ڈھانچے کی محدود دستیابی جیسے خدشات کے پیش نظر بڑی پیداواری صنعتیں پاکستان میں منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کریں گی، اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ خلیج تعاون کونسل اور سعودی عرب کی جانب سے اہم سرمایہ کاری کے لیے کچھ امید نظر آ رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پچھلے دنوں سعودی عرب میں تین ہفتے گزارے ہیں اور ان کے اس قیام کو بھی ملکی ذخائر بڑھانے اور معیشت کو فروغ دینے کے لئے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس بات کو شک کی نظر سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ خود کو جیو پالیٹکس سے دور رکھنے کے بعد سعودی عرب بذات خود مروجہ علاقائی اتحادوں کے ساتھ نبردآزما ہوتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اپنی معیشت کو اوپن کر رہا ہے۔ دفاع کے لئے پاکستان پر انحصار سعودی عرب کے لئے تزویراتی لحاظ سے اب پہلے جیسا اہم نہیں رہا، اس تناظر میں سعودی عرب کی جانب سے بڑی سرمایہ کاری آنے کے دعوے قیاس آرائی نظر آ رہے ہیں۔
مزید براں معنی خیز اصلاحات لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ چھوٹے کاروباری طبقے کو آسانی مہیا کی جائے اور صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بااختیار بنانے کے بجائے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی بااختیار بنایا جائے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدامات غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے تو نوکر شاہی کے سرخ فیتہ کلچر کو ختم کر دیں گے، لیکن چھوٹا کاروباری طبقہ بدستور ایک دستاویزی کاروبار کو رجسٹر کروانے اور چلانے کے لئے بہت سے ریگولیٹری تقاضوں کا سامنا کرتا رہے گا۔ کارپوریٹ اکاؤنٹ کھلوانے سے لے کر کام سے متعلق شناختی جانچ مکمل کرنے تک ایسے کئی مسائل ہیں جو مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ اصلاح کا تقاضا یہ ہے کہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنا اس کے ہدف میں شامل ہونا ضروری ہے۔
**
عمر اظہر بھٹی کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔