آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی معاشی پالیسی کے تحت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل بننے کے 4 سے 5 ماہ بعد بھی سرمایہ کاری کے لیے ایک بھی ڈالر پاکستان میں نہیں آیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک خواہ چین، سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات ہو یا کوئی پرائیویٹ انویسٹر ہو، تمام کی کوشش یہی ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی استحکام آئے تاکہ انہیں یہ گارنٹی ہو کہ جس حکومت کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں وہ مقررہ مدت تک اقتدار میں رہے گی۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ آرمی چیف کی معاشی پالیسی کے تحت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے رواں ہفتے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے بنائی گئی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ کمیٹی کے سیکرٹری جہانزیب خان نے ایس آئی ایف سی کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی اور کمیٹی کی ورکنگ کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ سہولت کونسل کی وجہ سے متعدد ایسے کام جنہیں سالوں لگ جاتے تھے اب چند ماہ میں ہی ہو گئے ہیں۔
صحافی کا کہنا تھا کہ اگر سرمایہ کاری کی بات کی جائے تو ان 5 ماہ میں ایک بھی ڈالر پاکستان میں نہیں آیا۔ اس سارے عمل میں تاخیر کی چند وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک سرمایہ کاری کے فیصلوں کے حوالے سے 'ویٹ اینڈ سی' کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ چین، سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات سمیت کوئی بھی ملک یا کوئی پرائیویٹ سرمایہ کار سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتے اور ان کی کوشش ہو گی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے۔ انتخابات ہوں جس کے بعد ایک مقرر مدت کے لیے حکومت اقتدار میں آئے تاکہ انہیں اس بات کی یقین دہانی ہو کہ طویل مدتی منصوبے کے دوران یہی حکومت رہے گی جس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ کیونکہ ابھی نگران حکومت ہے اور اس سے پہلے انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بھی ابہام تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور تاثر یہی ہے کہ جب الیکشن کے بعد ایک نئی حکومت مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے گی تو ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے عمل میں تیزی آئے گی۔
صحافی نے کہا کہ ایک اور بڑی وجہ مشرق وسطیٰ میں جاری فلسطین اور اسرائیل تنازع ہے۔ اس وقت غزہ میں جو حالات ہیں تو گلف ممالک سمیت دنیا بھر کی توجہ اس وقت غزہ پر ہے۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جس کی وجہ سے عرب ممالک کی ترجیحات تبدیل ہو سکتی ہیں۔ یہ تمام صورت حال بھی پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے منصوبے کو تاخیر کا شکار کر سکتی ہے۔
صحافی نے بتایا کہ سفارتی ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں جاری یہ سلسلہ کسی ایک جگہ آ کر نہیں رکے گا بلکہ اس کے طویل ہونے کا خدشہ ہے اور یہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ تمام تر جنگی ہتھیاروں سے لیس امریکی بحری بیڑا ایران کے سرحدی پانیوں میں موجود ہے۔ کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایران کئی بار دھمکی بھی دے چکا ہے۔ اگر صورت حال اس نہج پر پہنچتی ہے تو ایران کا ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پاکستان پر بھی ہوں گے۔
کچھ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی اس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی ہے اس میں ہمیشہ پاکستان نے اپنے لیے مواقع ڈھونڈے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی اور حالات خراب رہے تو اس سے پاکستان کو نقصانات تو ہوئے لیکن کچھ مثبت مواقع بھی ملے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکے یا نہیں۔ ہمارے اندرونی مسائل اپنی جگہ ہیں لیکن اس وقت خطے کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ عرب ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری آنے یا نہ آنے کے حوالے سے غیر یقینی کی صورت حال بھی اسی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔
صحافی نے کہا کہ تمام معاملات سے قطع نظر پاکستان پُرامید ہے کہ سعودی ممالک سے سرمایہ کاری لانے کا منصوبہ کامیاب ضرور ہو گا۔ پاکستان میں انتخابات کے بعد آنے والے سیاسی استحکام سے کافی معاملات واضح ہو جائیں گے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جو بھی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا۔