Get Alerts

جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (II)

سب اچھا اچھا کہنے سے اچھا نہیں ہو گا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کہتے ہیں تھوڑی سی سختی سے لوگ چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ جناب یہ تھوڑی سی سختی نہیں ہے۔ لوگ زندگی کے حق سے محروم ہیں۔

جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (II)

اس سلسلے کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (I)

سامراجی سازشوں اور تقسیم کی منصوبہ بندی کے حوالے سے یاد آیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہندوستان میں 'انگریز حکومت چھوڑ دو' یا Quit India Movement تحریک چل رہی تھی تو بعض گروپ اور تنظیمیں انگریز کے خلاف مسلح جدوجہد کی تحریک چلا رہی تھیں اس کے بارے میں نیرند سنگھ سریلا (جو ہندوستان کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے) نے اپنی کتاب “The Untold Story of Partition” جو امریکن اور برطانوی سیکرٹ خط و کتابت و ڈاکومنٹس کی بنیاد پر لکھی گئی جو بعد میں کھلے) میں لکھا ہے کہ 1942 میں امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے برطانوی وزیر اعظم چرچل کو لکھا کہ آپ اعلان کریں کہ جنگ کے بعد برطانیہ ہندوستان کو آزاد کر دے گا۔ ان کے خیال میں اس اعلان سے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کے دروازے کھل جائیں گے لیکن چرچل اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ابھی اور کئی سال وہ حکومت کریں گے۔

اس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اگر برطانیہ نے ہندوستان چھوڑ دیا تو اس خطے میں برطانوی اور امریکی معاشی مفادات کا دفاع کیسے ہو گا کیونکہ ادھر سوویت یونین سے خطرہ تھا پھر پشین گلف، مشرق وسطیٰ اور بحر ہند میں مفادات تھے لہٰذا اس پر سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات شروع ہوئے تو کانگریس کی قیادت نے تو صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی صورت میں کوئی اڈا قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر مسلم لیگ کی قیادت نے اتفاق کر لیا۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ پاکستان بننے کے چند سال کے اندر ہی پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں 1954 میں بغداد پیکٹ، 1955 میں سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں بندھ گیا اور یاد رہے کہ یہ معاہدے صرف سوویت یونین اور کمیونسٹ ممالک اور سوشلسٹ تحریکات کے خلاف تھے، پاکستان کے دفاع کے لئے نہیں تھے کیونکہ اگر یہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہوتے تو پھر کم از کم 1965 اور 1971 کی بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے دفاع میں مدد کرتے۔

ان سامراجی دفاعی معاہدوں اور اپنی معیشت و سیاست کو مغربی ممالک سے نتھی کرنے سے پاکستان کو کیا سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوئے اور پھر ہم نے جو 78-1977 اور 1980 کی دہائی سے امریکہ کے اتحادی کے طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جو مذہبی جہادی پالیسی اختیار کی، اس کے پاکستان کی معیشت و سیاست اور پورے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوئے وہ آئندہ کی پالیسیاں مرتب کرنے کے لئے نوجوان نسل کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت تھی اور ہے تا کہ وہ نئے وژن کے ساتھ مستقبل کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کر سکیں مگر اس پر جنرل صاحب نے ایک لفظ نہیں کہا۔ انہوں نے برطانیہ پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے خواتین کو ووٹ کے حق کی بات کی، اس پر بھی ان کے مطالعہ کے لئے عرض کروں کہ برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق ساٹھ کے عشرے میں نہیں بلکہ 1918 میں The Parliament (Qualification) of Women Act 1918  اور 1921 کے قوانین کے تحت حاصل ہوا جبکہ ہندوستان میں برطانیہ نے یہ حق Govt of India Act 1919 کے تحت دے دیا جو صرف خاص آمدنی رکھنے والی خواتین کو حاصل تھا اور بعد میں Govt of India Act 1935 کے تحت خواتین کو مکمل ووٹ کا حق حاصل ہوا۔

جہاں تک پاکستان اور ریاست مدینہ یا ریاست یثرب میں ہجرت کے حوالے سے مماثلت کا تعلق ہے ان میں کوئی بھی مماثلت نہیں ہے۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا تو مسلمانوں کو علم ہے مگر برصغیر میں پہلے ہجرت جون 1922 میں شروع ہوئی۔ وہ دراصل برطانیہ سے آزادی کے لیے تھی جو غیر منظم اور ناقص حکمت عملی اور صرف جذباتیت میں اٹھائے ہوئے قدم کے سبب ناکام ہوئی اور مسلمان سخت عذاب میں مبتلا ہوئے۔ چلیے کچھ ذکر ہم اس ہجرت کا کرتے چلیں۔

یہ ہجرت جون 1920 سے شروع ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم 1918 میں ختم ہوئی تو امریکہ، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ترکی کی عظیم سلطنت بھی خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل کر انگریزوں، فرانسیسیوں اور دوسری یورپی طاقتوں کے قبضے میں چلی گئی۔ ہندوستان کے مسلمان رہنماؤں نے خلافت تحریک شروع کی کیونکہ یہ تحریک بنیادی طور پر انگریزوں کے خلاف تھی۔ مہاتما گاندھی اور کانگرس نے بھی اس کی حمایت شروع کر دی لیکن قائد اعظم اور مسلم لیگ نے حمایت نہیں کی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف غصہ شدید تھا اور ادھر افغانستان میں امان اللہ بادشاہ مسلمان تھا۔ چنانچہ علماء نے اپنی جوشیلی تقریروں میں اور اپنے فتوؤں سے یہ کہنا شروع کیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے جہاں انگریزوں کی حکمرانی ہے لہٰذا ہمیں افغانستان جو دارالسلام ہے وہاں ہجرت کرنی چاہیے۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں جا کر افغان حکمرانوں کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔

ہجرت کی یہ تحریک قطعاً ہندوؤں کے خلاف نہیں تھی۔ یہ کوئی باقاعدہ منظم اور کسی ایک قیادت کے تحت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ ہندوستان کے کھاتے پیتے مڈل کلاس کے مسلمانوں نے جذبہ جہاد میں آ کر اپنی جائیدادیں، گھر اور سامان بیچ کر ہجرت شروع کر دی اور جب یہ مہاجرین افغانستان پہنچے تو ان کے ساتھ کیا حشر ہوا، وہ تاریخ گواہ ہے۔ یہ سلسلہ جون 1920 سے لے کر ستمبر 1920 تک چلتا رہا اور پھر کس طرح ان مہاجرین کو لوٹا گیا اور افغانوں اور ترکمان بصماجچوں کے ہاتھوں ان کا قتل عام ہوا اور جو چند ایک بچے، انہیں سوویت یونین کی سرخ فوج نے پناہ دی۔ یہ تاریخ گواہ ہے۔ ہجرت کرنے والے مسلمان تو مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے مگر باقی ماندہ ہندوستان میں مسلمانوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ایک تو ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا تعلق خوشحال درمیان طبقے سے تھا جو ہجرت کر گیا۔ باقی رہ جانے والے مسلمان مزید تعلیمی، معاشی و سماجی پسماندگی کا شکار ہوئے۔

برصغیر کی دوسری ہجرت تو تقسیم کے نتیجے میں تھی جو بٹوار ے کا لازمی جز تھا اور شاید مسلم لیگ کی قیادت اس کی شدت اور اثرات کو سمجھ نہیں پائی تھی۔ سرسری جائزے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بر صغیر کی ان دونوں ہجرتوں کی مدینہ کی ہجرت سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ بات پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت نے کہی ہے تو اس کا تجزیہ سلیم صافی، حامد میر، سہیل وڑائچ اور مظہر عباس جیسی شخصیتوں نے بھی نہیں کیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل ان حقائق پر ضرور غور کرے گی۔

اس کے بعد جنرل صاحب نے فرمایا کہ 'ریاست طیبہ کا مطلب پاک ریاست ہے اور پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کا مسکن ہے۔ اللہ پاک نے سعودی عرب کو تیل کی صورت میں قدرتی وسیلے سے نوازا ہے تو پاکستان پر بھی بے تحاشہ نوازشات کی ہیں۔ گلیشیئر، دریا اور بلوچستان میں معدنی ذخائر وغیرہ۔ ہم اگر فائدہ نہیں اٹھا سکے تو ہمارا قصور ہے۔ ہم نے مغربی کلچر کو اپنا لیا۔ دراصل ہم بڑے ناشکرے واقع ہوئے ہیں'۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جنرل صاحب آپ نے یہ تو فرمایا کہ ریاست طیبہ کا مطلب پاک ریاست ہے اور مسلمانوں میں پاک تو یہ اس لیے ہے کہ یہاں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ہے اور یہ پیغمبروں کی سرزمین ہے مگر وہاں جو خلق خدا رہتی ہے اس کے بارے میں بھی فرمایا ہوتا کہ شیخ اور بدو میں اب بھی فرق کیوں ہے؟ بادشاہت کیوں قائم ہے؟ کیا یہ بادشاہت کا Sheikhdoms and kingdom نظام اسلامی ہے؟ اور پھر کیا پورے خطہ عرب میں فلسطینیوں اور سرزمین فلسطین کی محافظ ہیں یا امریکہ اور مغربی سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں؟ آج تو صرف غزہ میں چھ ماہ میں 30 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کا اسرائیل نے قتل عام کیا ہے، 70 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں، گھر اسپتال تباہ ہیں، جو زندہ ہیں وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔ اس نوجوان نسل کے سامنے ان تضادات کا ذکر ضروری تھا۔

پاکستان کے بارے میں تو آپ نے کہہ دیا کہ یہ پاک لوگوں کا مسکن ہے لیکن ذرا ان پاک لوگوں کی 76 سالہ تاریخ کا بھی جائزہ لیجیے۔ یہاں پر بسنے والی اقلیتوں کا ذکر تو چھوڑ دیں، یہاں ایک مسلمان دوسرے کو کافر کیوں کہتا ہے اور اگر یہ مذہبی فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور جہالت ہے تو کیوں ہے اور اگر یہ ہمارے حکمرانوں کی تعلیمی، معاشی و سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور کیا یہ پالیسیاں ابھی جاری ہیں یا کیا ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کی نشاندہی نوجوان نسل کے سامنے ضروری نہیں تا کہ پاک سرزمین کی تعمیر کی طرف پیش قدمی کی جا سکے؟

جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے تو سعودی عرب نے تو تیل کی دولت کا استعمال کیا، ترقی بھی کی، خواہ اس کی تیل کی دولت کی بنیاد پر مغربی سامراجی ملکوں نے کئی گنا زیادہ ترقی کی۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت اور سیاست پر اپنے پنجے اور مضبوط کیے۔ پاکستان نے گوناگوں وسائل یعنی گلیشیئر، دریا، نہریں، زرعی زمین، بے شمار معدنی وسائل ہونے کے باوجود ترقی کیوں نہیں کی؟ ہمارا ملک قرض، غلامی، بے روزگاری، غربت، افلاس، جہالت، تعلیمی پسماندگی میں کیوں ڈوبا ہوا ہے اور دنیا کے غریب ترین اور مقروض ملکوں کی صف میں سب سے نیچے کیوں ہے؟ جمہوری ادارے کمزور کیوں ہیں؟ کیا نوجوان نسل کے سامنے اس معاشی و سماجی بدحالی کی اور جمہوری اداروں کی کمزوری کی وجوہات اور اس سے نکلنے کے لیے آئندہ کی پالیسی بیان کرنا ضروری نہیں ہے؟

پہلے زراعت کا ہی ذکر کریں۔ یہ ملک بنیادی طور پر زرعی ملک کہلاتا ہے۔ 56 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ مگر زمین کی بڑی ملکیت 18 ویں اور 19 ویں صدی میں انگریز نے جو لین ڈیٹ ارسٹوکریسی قائم کی تھی اس کے پاس ہے۔ آج بھی جاگیری اور بڑی زمین داری کی باقیات موجود ہیں۔ 46 فیصد زرعی آبادی زمین کے حق سے محروم ہے۔ دو کروڑ کسان زمین سے محروم ہیں۔ تھانہ، کچہری و تحصیل پر ان بڑے زمینداروں کے اثرات ہیں۔ اس لیے پارلیمنٹ اور سیاسی اقتدار پر انہی کی طبقاتی بالادستی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد جوں جوں فوجی نوکرشاہی کی بالادستی قائم ہوئی انہوں نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ شروع کر دی۔ ان افسران کا زراعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ انہوں نے اس زرعی زمین کو ٹھیکوں پر دے کر گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمائے اور زمین دارانہ نظام کے محافظ بن گئے۔

زرعی اصلاحات کی تاریخ طویل ہے۔ اس میں جائے بغیر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زرعی اصلاحات اور زمین کی بے زمین کسانوں، ہاریوں اور کھیت مزدوروں میں تقسیم تو ایک طرف، ہمارے حکمرانوں کی کوئی زرعی پالیسی ہی نہیں رہی کہ کون سی فصل کن علاقوں میں کاشت کرنی ہے، مارکیٹ کا تعین کیسے ہو گا، شمالی پنجاب اور دیگر صوبوں میں بڑے حصے میں زمین کی ملکیت چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہے۔ اس کی استعمال اراضی تک نہیں کی گئی جو ضروری تھا تا کہ زرعی پیداوار اور چھوٹے ملکیت اداروں کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ سرکاری زمین پر اجتماعی کاشتکاری یا کوآپریٹو فارمنگ شروع کرنے کے بجائے کارپوریٹ فارمنگ ایکٹ لایا گیا۔ 90 لاکھ ایکڑ زمین فوج کو الاٹ کر دی گئی۔ وہ آگے ٹھیکے پر بیرونی اور ملکی کمپنیوں کو دیں گے۔ اب ان کروڑوں بے زمین کسانوں، ہاریوں، کھیت مزدوروں اور زراعت سے متعلق لوگوں کا کیا ہو گا؟ ان میں سے کچھ کا کھیت مزدوروں کے طور پر استحصال جاری رہے گا۔

آج ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور کیوں ہیں؟ صنعتی پسماندگی، بنیادی صنعت قائم نہ کرنے اور جو اسٹیل مل کی طرح قائم ہوئی بھی ان کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ گیس، تیل، سونے، تانبے، سلیکون وغیرہ کی انتہائی قیمتی معدنیات کے ذخائر ہونے کے باوجود ہم ان سے محروم کیوں ہیں اور آئی ایم ایف اور World Bank کی بین الاقوامی سامراجی ممالک کی بالا دستی کیوں قائم ہے؟ قرض غلامی کیوں ہے؟ ان پالیسیوں کا تعلق بھی نوجوان نسل سے گہرا ہے اور ان تمام ناکامیوں کا ان کے سامنے بیان کرنا ضروری ہے۔

احترام کے ساتھ سب اچھا اچھا کہنے سے اچھا نہیں ہو گا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کہتے ہیں تھوڑی سی سختی سے لوگ چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ جناب یہ تھوڑی سی سختی نہیں ہے۔ لوگ زندگی کے حق سے محروم ہیں کیونکہ زندگی کا حق تعلیم، روزگار، صحت، علاج معالجے اور رہنے کے لیے چھت کے بغیر بے معنی ہے۔ ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے کیونکہ جب لوگوں کی چیخیں نہ سنی گئیں تو پھر وہ گلے پڑیں گے اور خون خرابہ ہو گا اور آج کی نسل کو اس سے گزارنا پڑے گا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہمارے سماج کے ان مسائل اور معیشت و سیاست کے ان پہلوؤں پر آپ روشنی ڈالتے۔

اختر حسین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور عوامی ورکرز پارٹی کے صدر ہیں۔