مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (I)
جنرل صاحب آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ آپ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی رہے ہیں اور سیاست سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن آپ نے فرمایا کہ 'ہماری سیاست یا ادارے ہماری سوسائٹی کے عکاس ہیں، اگر سوسائٹی 100 فیصد فرشتوں پر مشتمل ہوتی اور پھر ہماری حکومتیں خراب ہوتیں تو ہم گلا کر سکتے تھے لیکن سوسائٹی اپنے آپ کو بہتر کرنے کے بجائے یہ توقع کرتی ہے کہ اسے اچھی حکومت اور ادارے ملیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ تقسیم اللہ کی ہے۔ اور ذہنی انتشار اور اشتعال سوشل میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ اس لیے میں اس سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر 95 فیصد جھوٹ ہوتا ہے۔ نوجوان تحقیق کریں'۔
دوسرا حصہ یہاں پڑھیں؛ جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (II)
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہمارے ملک کی سیاست کے متعلق سب سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ تاثر قائم ہے کہ حکمران طبقات کی بندر بانٹ کی سیاست میں آپ کی مینجمنٹ لازمی ہے۔
لیکن آپ کا یہ فلسفہ کہ ہماری سیاست یا ادارے ہماری سوسائٹی کے عکاس ہیں اور اگر سوسائٹی یعنی پورے عوام 100 فیصد فرشتے بن جاتے تو حکومت بھی اچھی ہوتی، یعنی اگر عوام خراب ہے تو حکومت اچھی نہیں ہو سکتی، یعنی غلطی عوام ہی کی ہے، قیادت بے قصور ہے۔ حضور معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایسا ہوتا تو پیغمبر دنیا میں نہیں آتے۔ پیغمبر اسلام نے عرب کے جاہل معاشرے کو اپنی رہنمائی سے درست کیا تھا۔ وہ پہلے امین اور صدیق تھے تو لوگوں نے ان کی پیغمبری کے دعوے کو بھی تسلیم کر لیا تھا۔ پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قیادت نے معاشرے یا سوسائٹی کو اپنی رہنمائی سے درست کیا ہے یا اس کی برائی سے کھائی اور اندھیرے کی طرف گیا ہے۔ ہمارے رہنما اپنے کردار کے تاریک پہلوؤں کو چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ جیسی قوم ویسے فرشتے، یعنی قوم خراب ہے اس لیے لیڈر یا قائدین خراب ہیں۔ جناب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اگر کسی قوم کو قائد اچھا مل گیا تو اس کی رہنمائی اور اس کے کردار کی پیروی کرتے ہوئے پوری قوم سرخرو ہوئی۔
قائداعظم کی قیادت نے مسلم لیگ اور برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور پاکستان وجود میں آیا۔ اب پاکستان کی تعمیر میں ان کے فلسفے اور آئین ساز اسمبلی میں صدر منتخب ہونے پر 11 اگست 1947 کی ان کی دور اندیش اور زرین خیالات و نظریات پر مبنی تقریر جس میں انہوں نے ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا کہ 'خواہ ہندوستان میں مذہبی نفرتیں ہوں یا انگلینڈ میں عیسائیوں کی فرقہ بندیاں اور قتل و غارت گری، مذہبی فرقہ بندیوں اور نفرت کی کلہاڑی کو دفن کیے بغیر ترقی ممکن نہیں'۔ پھر انہوں نے واضح کہا تھا کہ مذہب کا ریاستی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، مگر ان کے ان سیکولر/ دنیاویت پسندی پر مبنی نظریات سے روح گردانی پر بات کر کے حکمران ہمیں پسماندگی، اندھیروں اور فرقہ واریت کی طرف لے گئے۔ اور آج ہم جس فرقہ واریت، تقسیم، معاشی و سماجی بحران کا شکار ہیں وہ سیاسی قیادت کی وجہ سے ہے نہ کہ عوام کی وجہ سے اور اس سیاسی قیادت میں 30، 32 سال سے زیادہ فوجی قیادت کا بھی دخل ہے۔
یہ سیاسی و فوجی قیادت کے فیصلے اور پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے اکثریتی آبادی والا مسلمانوں کا اور پاکستان کا حصہ مشرقی بنگال جہاں کی قیادت میں 1940 کی قرارداد پیش کی گئی تھی ہم سے الگ ہو کر آزاد ہو گیا اور غربت کا شکار مشرقی پاکستان آج بنگلہ دیش کی صورت میں ہم سے معاشی و سیاسی ترقی میں کہیں آگے ہے، یہ کریڈٹ ان کی قیادت کو جاتا ہے۔ لہٰذا پاکستانی سماج کی ترقی کے لیے ایک ایسی قیادت اور سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو اس کثیر قومی ریاست کے حقائق کو ناصرف تسلیم کرے بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے حقیقی وفاقی پارلیمانی ریاست کو مضبوط کرے جہاں وفاقی اکائیوں کو اپنے معاشی وسائل سے محرومی کا احساس نہ ہو۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ایسی سیاسی قیادت جو فرقہ واریت کے اندھیروں سے نکال کر ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے برابری کی بنیاد پر حقوق کو تسلیم کرے۔ ایسی قیادت جو بنیادی معاشی پالیسیاں عوام کے نقطہ نظر سے تشکیل دے، مغربی سامراجی معاشی و سیاسی چنگل سے آزاد کرے اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے، قرض غلامی سے نجات دلائے۔ ہر شہری کی گریجویشن تک تعلیم کو مفت اور لازمی قرار دے، صحت علاج معالجے اور رہنے کی چھت مہیا کرے۔ اس سے نئی سوسائٹی کی تعمیر ہو گی، نیا باشعور انسان جنم لے گا اور ترقی کرے گا۔ یہ سب سیاسی قیادت کا کام ہے۔ جیسی قیادت ہو گی اور اس کی سیاسی جماعت ہو گی ان پالیسیوں اور عملی زندگی سے اس طرح کی سوسائٹی پروان چڑھے گی۔
جنرل صاحب عرض ہے کہ اللہ نے سب کو برابر پیدا کیا ہے۔ یہ غریب امیر اور اچھے برے کی تقسیم انسانوں کی پیدا کردہ ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں نے تو صرف نیکی اور سب کے برابر حقوق کی تبلیغ کی ہے۔
جہاں تک میڈیا کے شیطانی ہونے کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ ہمارے علماء نے تو جب لاؤڈ اسپیکر آیا تھا اس کے خلاف بھی فتوے دیے تھے کہ یہ شیطانی چرخہ ہے، کیمرے کی تصویر اور گھڑی کو بھی بدعت قرار دیا تھا، چاند پر جانے پر بھی کفر کے فتوے دیے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ چیف جسٹس محمد افضل ضلہ کے زمانے میں مولویوں نے ایک پٹیشن داخل کی کہ فوٹو حرام ہے تو فوٹو کھنچوانے سے منع کیا جائے۔ کئی دن بحث ہوتی رہی تو ایک دن جناب عابد حسن منٹو سینیئر ایڈووکیٹ اپنے مقدمے کے سلسلے میں ضلہ صاحب کی عدالت میں داخل ہوئے۔ کاروائی روک کر چیف جسٹس نے انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ ہمارے سینیئر ایڈووکیٹ ہیں، ہماری اس سلسلے میں معاونت کریں۔ تو منٹو صاحب نے کہا اس سے پہلے کہ میں کچھ عرض کروں پہلے آپ اپنے اوپر لگی ہوئی قائد اعظم کی تصویر اتار دیں، پھر آپ ججز اور تمام علماء اپنے اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ سرنڈر کر دیں، پھر میں بات کروں گا۔ تو فوراً کاروائی ملتوی ہو گئی۔
جناب سوشل میڈیا بھی آج کی حقیقت ہے۔ عوام تک اور خاص کر نوجوانوں تک جن سے آپ مخاطب تھے ان کی سوشل میڈیا تک رسائی کو نہیں روک سکتے۔ ہاں اس کے مثبت و منفی پہلو ہیں۔ ریاست اس کو کس طرح کنٹرول کر سکتی ہے۔ یہ بھی لوگوں کی تربیت پر منحصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کس طرح سے کریں۔ صحیح اور غلط، اچھے اور برے، سچ و جھوٹ کی تحقیق کس طرح سے کریں، ملکی قیادت اپنی معاشی، سیاسی و سماجی اور تعلیمی پالیسیوں سے ہی Clarity of mind پیدا کر سکتی ہے۔
جناب نوجوانوں کو گو کہ سوالات کا بہت کم موقع ملا مگر پھر بھی دو تین سوالات بڑے بروقت تھے یعنی اچھی حکمرانی کا مسئلہ جس کے بارے میں اوپر عرض کر چکا ہوں اور پھر تعلیم اور صحت کا مسئلہ اور یہ کہ ہر شہر میں سی ایم ایچ قائم کیا جائے۔ اس مطالبے کا ڈی ایچ اے بنانے سے کوئی تقابل نہیں۔ سی ایم ایچ یعنی اسپتال تو تمام شہریوں کے لیے بنیادی انسانی ضرورتوں میں آتا ہے مگر ڈی ایچ اے کا قیام تو کاروباری ہے جو کہ عام شہریوں کے لیے نہیں ہے۔ یعنی ہر بڑے شہر میں جہاں کنٹونمنٹ قائم ہے وہاں شہر کی بہترین زمین صوبائی حکومتوں سے لے کر پہلے فوج کے افسران کو پلاٹ کوڑیوں کے دام الاٹ کیے جاتے ہیں اور پھر اس کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا ہے۔ اب شہروں کے قریب زرعی زمینوں کو حاصل کیا جا رہا ہے جیسے ملتان ڈی ایچ اے جو کہ بہترین زرعی زمین تھی، آم کے باغات تھے، ہزاروں آم کے درخت کٹوا دیے گئے ہیں اور ایک خاص طبقے کا انتہائی منافع بخش کاروبار جاری ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
شہروں میں غریبوں کی کچی بستیوں کو کیوں مسمار کیا جاتا ہے، ان کے جھونپڑے اور کچے مکان تو زندہ رہنے کے لیے چھت کا حق ہے۔
جنرل صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ 'ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے، کبھی اچھی حالت میں ہو گی اور کبھی بری حالت میں، اگر ماں بیمار ہو تو کیا اسے چھوڑ دیں گے'۔
یہ ایک نقطہ نظر ہے۔ ہم نے فلسفہ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ ریاست جبر کی مشین ہوتی ہے۔ یہ دونوں پہلو ہیں، ماں کا کردار اپنے بچوں یا عوام کو اچھی زندگی دینا ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور رہنے کی چھت جو انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر 76 سالوں میں ماں یہ دینے سے قاصر ہے وہ بچوں کے معصومانہ تقاضوں پر سرزنش کرتی ہے اور تادیبی کارروائیاں کرتی ہے تو شکایت تو ضرور پیدا ہو گی اور جبر کی صورت میں بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے، ماں کو چھوڑنے کے لئے نہیں۔ لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماں کمزور اور بیمار کیوں ہے اور کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں یا حکمران جن کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت ریاست کی تعریف ہے کہ 'ریاست پارلیمنٹ، وفاقی حکومت، صوبائی اسمبلیاں، صوبائی حکومت اور وہ ادارے جو ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، پر مشتمل ہے'۔
لہٰذا ذمہ دار پارلیمنٹ میں بیٹھے حکمران ہیں نہ کہ عوام۔ ریاست کی کمزوری اور بیماری کے ذمہ دار وہ ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں اور تعمیل کی ذمہ داری بھی۔ اس لیے میں نے کہا ہے کہ اگر حکمران اور قیادت اچھی ہو گی تو عوام کی تربیت بھی ان کو دیکھتے ہوئے بہتر ہو گی اور اگر وہ خود غرض، بد دیانت اور کرپٹ ہوں گے تو عوام میں بھی خود غرضی و مایوسی پھیلے گی اور نتیجتاً نفرت اور بغاوت جنم لے گی۔ لہٰذا ریاست/ماں کی کمزوری اور بیماری کا دوش عوام پر نہیں ڈال سکتے۔
مقصد یہ ہے کہ یہ ہر شخص کے دیکھنے کی نظر ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ عام غریب، محنت کش کی نظر سے یا پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کی نظر سے، حکمران اپنی معاشی و سماجی پالیسیاں کس نقطہ نظر سے بناتے ہیں، اسے آج کے نوجوانوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے آپ اور دیگر دانشور صحافی بھی آئندہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔