درآمد شدہ جہاد: اسلام کے نام پر جنگ کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتوں نے مسلمان گروہوں کو کس طرح مسلح کیا

درآمد شدہ جہاد: اسلام کے نام پر جنگ کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتوں نے مسلمان گروہوں کو کس طرح مسلح کیا

(ندیم فاروق پراچہ)


ندیم فاروق پراچہ ہمیں بتاتے ہیں کہ سوویت مخالف جہادکوئی پہلا موقع نہیں تھا جب غیر مسلم طاقتوں نے اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے جہاد کے تصور کو تحریک دی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی، جس کا باقاعدہ دستاویزی ثبوت موجود ہے، پہلی جنگِ عظیم کے دوران دکھائی دی۔


 

جماعتِ اسلامی کے قابلِ احترام مفکر، پروفیسر خورشید احمد ’’امریکہ اور مسلم دنیا میں بے چینی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کا ساتھ دینے کی پالیسی ’’اسلامی طاقتوں ‘‘ کی غلطی تھی۔ 1960 ء اور 1970 ء کی دہائیوں، اور اس کے بعد 1980ء کی دہائی میں بائیں بازو کے ناقدین مسلم ممالک کے کئی ایک اسلامی گروہوں کو سوویت یونین کے خلاف مغرب کی جنگ لڑنے کے ناقد تھے ۔ عرب دنیا میں بائیں بازو کے عرب قوم پرستی کے نظریات اور اسلامی قوتوں کا ٹکراؤ موجود تھا۔ اگرچہ جماعتِ اسلامی کے بانی اور دانشور، ابوالعلی مودودی نے اس پیش رفت کو مذہب کے منکروں (کیمونسٹوں) کے خلاف اہلِ ایمان(مسلمانوں اور مسیحیوں ) کے درمیان ایک باتدبیر شراکت داری قرا ر دیا، لیکن اُن کے بعد کے مفکر، جیسا کہ خورشید احمد کے نزدیک یہ ایک بڑی حد تک غلط پالیسی تھی۔ یہ با ت دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا مودودی ، جو ایک صاحبِ قلم انسان تھے، سیکولرازم کے بارے میں بھی اتنے شکوک و شبہات رکھتے تھے جتنے کمیونزم اور سوشلزم کے بارے میں۔ لیکن وہ مذکورہ بالا شراکت داری کو مسلمان اور سکیولرمغرب کے درمیان نہیں بلکہ مسلمانوں اور مسیحی طاقتوں کے درمیان شراکت داری سمجھتے تھے ۔





ابوالعلی مودودی (بائیں طرف سے دوسرے)



تاہم سرد جنگ کے دوران جماعتِ اسلامی کی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد مغرب کا ساتھ دینے کی حماقت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کیا اسلامی گروہوں کو سوویت یونین اور بائیں بازو کی قوتوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ اسلامی گروہوں کی تزویراتی غلطی نے مغرب کو سوویت یونین کا خاتمہ کرنے میں مدد دی، اور اس کے نتیجے میں مغرب کو مسلم ممالک کے معاشی، سیاسی اور سماجی ذرائع پر اپنا تسلط جمانے کا موقع مل گیا۔ دائیں بازو کی مذہبی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک مفکر کا اس طرح اپنا ناقدانہ جائزہ لینا قابلِ تعریف ہے ، لیکن ہم بعض اوقات کسی دلدل سے نکلنے کی کوشش میں ا س میں مزید دھنس جاتے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جماعتِ اسلامی نے جو راہ اختیار کی وہ پروفیسر صاحب کی خود احتسابی کے برعکس تھی۔وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسلامی برادری ( امت) کو ’’اپنی صفوں کو منفی عناصر سے پاک کرکے اپنے اندر ایسا اتفاق و اتحاد پیدا کرنا چاہیے جو ’’امریکی، صیہونی ، ہندو‘‘منصوبے( جو اسلامی دنیا پر تسلط جمانا چاہتا ہے) کے خلاف متحرک ہو ۔ تاہم اُنھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ ’’صفوں میں پاکیزگی لانے ‘‘ کے لیے کیا طریقِ کار اختیار کیا جائے گا۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلامی قوتوں نے لادین کمیونزم کو نیست و نابو د کرنے میں مدد دی لیکن سوویت یونین کے انہدم کے بعد اُنہیں دھوکہ دیا گیا۔ اسلامی قوتیں انتخابی میدان میں کمزور تھیں(سوائے مصر کی اخوان المسلمین کے )۔ایسی تنظیموں کو داخلی حمایت عموماً ریاستی اداروں کی سرپرستی کی صورت میں ملتی ہے ۔ عوامی سیاست کرنے والے دھڑے ان اداروں کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس طرح یہ قوتیں اپنی مرضی سے ایسے منصوبوں کا حصہ بن گئیں جو سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سوویت بلاک کے خلاف بنائے تھے ۔ ان قوتوں نے دیکھا کہ یہ الائنس اُنہیں ملک میں سیاسی اہمیت دلا سکتا ہے ۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کا ایک بڑا حصہ متحارب پراکسی قوتوں کے درمیان کشمکش کی صورت میں تھا۔ یہ قوتیں امریکہ اور سوویت یونین کی پشت پناہی رکھتی تھیں لیکن ان کی سرزمین سے دور اپنے اپنے میدانوں میں فعال تھیں۔ اس دوران، جبکہ یہ عالمی سپرپاورز کے لیے لڑی رہی تھیں، ان قوتوں کے ذاتی مفادات اپنی جگہ پر موجود تھے۔ جب جماعتِ اسلامی اور کئی ایک مسلم ممالک میں موجود ایسی تنظیمیں امریکی الائنس میں شامل ہوئیں تو اُنھوں نے ایسا صرف اپنی سیاسی کمزوری کی تلافی اور مالی مفاد حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ مغرب نے سرد جنگ کے دوران ان قوتوں کے علاوہ مسلم ممالک کے بنیاد پرست حکمرانوں کو بھی تقویت دی۔ ان حکمرانوں کے لیے مغرب کی آشیر باد سومند تھی کیونکہ اُنہیں اپنے عوام کی حمایت حاصل نہ تھی۔ چنانچہ اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی سہارا درکار تھا۔




1955 ء میں مصرمیں ہجوم اخوان کے ہیڈکورٹرز کو نذرِ آتش کرتے ہوئے۔ 1970 ء کی دہائی تک اخوان المسلمین کو امریکہ اور سعودی عرب کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ جمال عبدالناصر کی عرب قوم پرست حکومت نے کئی بار ان ممالک پر اخوان کو فنڈز فراہم کرنے کا الزام لگایا۔

مثال کے طور پر ایسی ہی قوتوں نے سوویت یونین کے خلاف ’’افغان جہاد‘‘ کیا، لیکن اس دوران اُن کی دلچسپی کا محور سیاسی اور مالی مفاد حاصل کرنا تھا۔ اُنہیں اُن بیرونی قوتوں نے فنڈز فراہم کیے جن کے اپنے مفادات تھے ۔ اُنہیں جہاد اور اس کے نظریات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ لیکن سوویت یونین کے خلاف ایک غیر مسلم قوت کی فنڈز سے کیا جانے والا جہاد کوئی منفرد مثال نہیں۔ نہ ہی پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی غیر مسلم قوت نے اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے مسلمان اتحادیوں کے ساتھ مل کر جہاد کے تصور کوتحریک دی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی، جس کا باقاعدہ دستاویزی ثبوت موجود ہے، پہلی جنگِ عظیم (1914-1918) کے دوران دکھائی دی ۔ جب 1914 ء میں یورپ پر جنگ کے بادل چھانے لگے تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا ایک جرمن مہم جو ، میکس وان اوپن ہیم اسلامی دنیا میں سفر کے بعد برلن میں آیا۔ اُس نے جرمنی کے قیصرسے ملا قات کے دوران بتایا کہ ’’اسلام جرمنی کا خفیہ ہتھیار‘‘ثابت ہوسکتا ہے۔ اکسفورڈ میں تاریخ کے پروفیسر، ہیو سٹراچن اپنی کتاب ’’دی فرسٹ ورلڈ وار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اوپن ہیم نے قیصر کو قائل کرلیا کہ جرمنی کے دشمنوں، برطانیہ اور فرانس کو کمزور کیا جاسکتاہے اگر جرمنی خفیہ طور پر ان ممالک کے زیرِ تسلط مسلمان علاقوں( افریقہ، جنوبی اور مشرقی ایشیا) میں جہاد ی سرگرمیوں کو تحریک دے ۔





میکس وان اوپن ہیم



جنگ کے شروع ہونے پر جرمنی نے عثمانی خلافت کے سلطان کے ساتھ رابطہ کیااور جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا کہا۔ اُس وقت تک عثمانی سلطنت کی حالت خراب تھی۔ اس کی فوج کمزور اور بدعنوان تھی۔ انیسویں صدی میں کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرنے اور اپنی خالی جیبیں بھرنے کا موقع جانتے ہوئے سلطان نے جرمن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ جرمنی کی طرف خطیر رقم ادا کرنے سے مشروط تھا۔ سلطان سے کہا گیا کہ وہ جرمنی ( اور ترکی) کی اس جنگ کو جہاد قرار دے ۔ سلطان نے ایسا ہی کیا۔ اس کے ساتھ ہی ترک علمااور افسران نے ملک میں جہاد کا ہیجان برپا کردیا۔ سطان نے اپنے فرمان میں کہا...’’جان لو، ہماری ریاست اس وقت روس، انگلستان اور فرانس کی حکومتوں کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے ۔ یہ ریاستیں اسلام کی ازلی دشمن ہیں۔۔۔۔‘‘ترکی فوجوں کو ٹریننگ دینے کے علاوہ جرمنی نے فرانسیسی، فارسی ، عربی اور اردو میں پمفلٹ بھی شائع کیے جو مسلمانوں کو مسیحیوں کو ہلاک کرنے پر اکساتے تھے ۔ ایک پمفلٹ اہلِ ایمان کو تلقین کرتا تھا...’’ کسی فرانسیسی، روسی ، برطانوی کافر کا خون اسلامی سرزمین پر بہانے سے ہر گز گریز نہ کرو۔‘‘1980ء کی دہائی کا جہادی میٹریل جو افغانستان میں سوویت فورسز کے خلاف پھیلایا گیا، امریکہ میں شائع ہوا تھا۔




ایک پراپیگنڈا میگزین کا سرورق، جو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اسلام کے الائنس کو تحسین پیش کرتاہے ۔



پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمنی میں شائع شدہ پمفلٹ برطانوی نوآبادیاتی نظام کی مسلمان کالونیوں میں تقسیم کیے گئے تاکہ برطانوی استعمار کے خلاف مسلمان سپاہیوں کے دل میں بغاوت پیدا کی جاسکے ۔ لیکن یہ منصوبہ، جس پر جرمنی اُس وقت تین بلین مارک خرچ کرچکا تھا، ایک المناک انجام سے دوچار ہوا۔ 1918 ء کے اختتام پر عثمانی سلطنت کے ہاتھ سے دمشق، بغداد اور بیت المقدس نکل گئے ، اور باقی سلطنت کو یورپ کے شراکت داروں نے تقسیم کرلیا ۔ جہاد قرار پانے والی اس جنگ میں 240,000 ترک ہلاک ہوئے ۔ جرمنی کے سامراجی عزائم کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ ترک سلطان کی دولت حاصل کرنے کی خواہش تھی ۔ جرمنی یہ جنگ ہار گیا۔ عثمانی سلطنت مفلوک الحال ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں عثمانی سلطنت تنکوں کی طرح بکھر گئی ۔ لیکن پھر سیکولر قوم پرستوں کی قیادت میں ترکی ایک جمہوریہ بن گیا، اور اس نے تیزی سے جنگ کے دوران بھڑکائے جانے والے جہادی بیانیے سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرلی ۔