26 برس قبل دنیا کو معروف قوال غلام فرید صابری کے اچانک انتقال کی خبر سن کر جھٹکا لگا تھا۔ پراسرار حالات میں واقع ہونے والی ان کی طبعی موت کا راز بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔
پاکستان کے قوال گروپوں میں صابری برادران گروپ اپنی الگ شناخت رکھتا تھا، جس کے مرکزی گائیک غلام فرید صابری تھے، جو اپنے منفرد گلے یعنی اپنے vocal cord اور گرجدار آواز کی بنا پر اپنے قوال گروپ کے روح رواں تھے۔ گروپ میں بطور سیکنڈ گائیک اپنی قدرے نرم آواز کا جادو جگانے والے ان کے چھوٹے بھائی مقبول صابری تھے۔ اگرچہ سنگیت شناسوں اور ماہرین موسیقی کے نزدیک کہیں زیادہ سریلے اور نہایت دلکش آواز کے مالک تھے اور پرفارمنس کے دوران ساری مرکیاں، سارے پلٹے وہی لگاتے تھے۔ تاہم اس قوال پارٹی کی پہچان بڑے بھائی غلام فرید صابری ہی تھے، جن کا نام اپنے قوال گروپ پر آخری وقت تک چھایا رہا۔
غلام فرید صابری، مقبول احمد صابری گروپ اگرچہ نہ آزاد قوال کے درجہ میں آتے تھے اور نہ عزیز میاں قوال کی طرح سولو قوال گروپ کی کیٹیگری میں لیکن گروپ کے lead vocalist ہونے کی بنا پر غلام فرید صابری اسی طرح اپنے گروپ کی واحد شناخت تھے، جس طرح شام چوراسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے برصغیر پاک و ہند کے نامور موسیقار استاد فتح علی خاں کے صاحبزادے نصرت فتح علی خاں، اپنے چچا زاد مجاہد مبارک علی خاں کے ساتھ اپنی قوال پارٹی کی یکتا پہچان تھے۔ مبارک علی خاں کے بیٹے مجاہد مبارک علی خاں پارٹی میں سیکنڈ گائیک ہونے کے باوجود اپنی پہچان نہ بنا پائے، بلکہ ہارمونیم پر سنگت کرنے والے استاد نصرت کے چھوٹے بھائی فرخ علی خاں (راحت فتح علی خاں کے والد) مجاہد مبارک علی خاں کی نسبت زیادہ توجہ حاصل کرتے رہے۔
جب تک استاد نصرت فتح علی خاں کا ستارہ عروج پر نہیں پہنچا تھا تب تک لاہور کا داتا گنج بخش کا 3 روزہ میلہ ہو یا پاکپتن کا بابا غلام فرید گنج شکر کے سالانہ عرس کی اختتامی محفل سماع، آخری پرفارمنس غلام فرید صابری، مقبول احمد صابری قوال پارٹی ہی کی ہوتی رہی۔ غلام فرید صابری کے اہل خانہ کے علاوہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ ٹھیک 26 برس قبل 5 اپریل کو وہ حساس ایجنسی کی تحویل میں پوچھ گچھ کے دوران دل کا دورہ پڑجانے سے چل بسے تھے۔
ذرائع کے مطابق ان کا چونکہ خواجہ نظام الدین اولیا اور خواجہ معین الدین چشتی کے عرسوں کی تقریبات میں شرکت کے لئے دہلی اور اجمیر مطلب، انڈیا خاصا آنا جانا تھا۔ اس لئے ان کے بھارتی خفیہ ایجنسی کے لئے کام کرنے کا شبہ تھا۔
ذرائع کے مطابق غلام فرید صابری چونکہ غیر معمولی فربہ جسم اور بھاری ڈیل ڈول رکھتے تھے اس لئے حساس ادارے کی انٹیروگیشن کے دوران وہ دل پہ پڑنے والا دباؤ اسی طرح نہ سہہ پائے جس طرح جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دنوں میں لاہور کے چنبہ ہاؤس میں قائم نیب کے انٹیروگیشن سیل میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کے مبینہ فرنٹ مین میاں ارشد جاں نہ سہہ پائے تھے۔ میاں ارشد بھی بھاری جسم کی وجہ سے تفتیش کاروں کی پوچھ گچھ کے دوران کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہارٹ اٹیک سے چل بسے تھے۔