کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا آرٹسٹ دیکھا ہے کہ جسے دیکھتے ہی خیال آئے کہ اسے رب نے سب کچھ ہی عطا کر دیا ہے۔ وہ پرفیکٹ ہے، آئیڈیل ہے۔ اس کے فن میں کوئی کمی ہے ہی نہیں۔ اور ورسٹائل اتنا کہ اس کے سامنے ورسٹائل کا لفظ ہی چھوٹا پڑ جائے۔ جی ہاں! یقیناً آپ نے دیکھا ہے۔ آپ اسے اب بھی تقریباً روز ہی دیکھتے اور اس کے فین ہیں۔ اور جتنی بار دیکھتے ہیں اتنی بار خوش ہوتے ہیں۔ چلیں زیادہ سسپنس نہیں رکھتے۔ وہ آرٹسٹ ہیں جنابِ سہیل احمد صاحب۔
سہیل احمد صاحب اس وقت برصغیر کے مہان ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ اگرچہ وہ کامیڈین کے طور پر زیادہ جانے جاتے ہیں مگر بڑے بڑے اداکاروں کی اداکاری ان کی سنجیدہ ایکٹنگ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتی۔ 100 سے زائد ٹی وی سیریلز ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان میں سے چند ایک میں ہی انہوں نے مزاحیہ کردار نبھائے۔ 700 سے زائد تھیٹر پلے کیے۔ اُس وقت تھیٹر عروج پہ تھا۔ اس لیے مزاحیہ ڈراموں میں بھی کم از کم 15، 20 منٹس کے سنجیدہ اور ٹریجڈی سینز ہوتے تھے۔ تبھی تو جب سہیل احمد صاحب کو کوئی کامیڈین کہے تو انہیں غصہ آ جاتا ہے۔ اور وہ اس لیے کہ وہ صرف کامیڈین ہی نہیں بلکہ منجھے ہوئے اداکار، لکھاری اور ڈائریکٹر بھی ہیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سہیل احمد کو ٹی وی پروگرام 'حسبِ حال' سے بھی بہت شہرت اور محبت ملی۔ حسبِ حال میں وہ عزیزی بنتے ہیں اور یہ شو 15 برس سے جاری ہے۔ اب تلک اس کے 3 ہزار سے زائد شوز ہو چکے ہیں۔ اسی لیے تو سہیل صاحب عزیزی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ سہیل احمد حسبِ حال میں 200 سے زائد گیٹ اپس کر چکے ہیں۔ مگر سوال تو یہ بھی ہیں ناں کہ سہیل احمد شوبز میں کیسے آئے؟ انہوں نے اداکار بننے کا ہی فیصلہ کیوں کیا؟ کیا انہیں گھر والوں نے سپورٹ کیا؟ ادبی گھرانے کے سہیل احمد کیا اپنے خاندان کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے ٹی وی کا رخ کیا؟ تھیٹر کو بچانے کے لیے سہیل احمد نے کتنی کوششیں کیں اور ناکام کیوں ہوئے؟
ایک بار ٹیوشن سے لیٹ ہو جانا سہیل احمد صاحب کو ایکٹر بنا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ سہیل احمد جو اُس وقت ایف ایس سی پری میڈیکل کے سٹوڈنٹ تھے، ایک روز ٹیوشن لینے دیر سے پہنچے۔ لیٹ آنے پر ٹیچر نے انہیں دیر تک بٹھائے رکھا۔ تاخیر سے گھر پہنچنے پر سہیل احمد کے والد نے انہیں خوب پیٹا۔ کہا، تم یقیناً فلم دیکھ کے آئے ہو۔ سہیل احمد صاحب نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، بس روتے رہے۔ مگر سوچا کہ ان پر فلم دیکھنے کا الزام کیوں لگا؟ ایسا کیا ہے فلم میں؟ سو جھٹ سے فیصلہ کیا کہ کل فلم دیکھنے ضرور جاؤں گا۔ اور پھر اگلے روز فلم دیکھنے چلے گئے۔ سنیما کا ماحول بہت پسند آیا۔ فیملیز فلم دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ جس اداکار کا جو سین اچھا لگتا، خوب تالیاں بجاتا پورا ہال۔
رہے بڑی سکرین پر نظر آنے والے ایکٹرز تو انہیں دیکھ کر تو سہیل احمد حیران بلکہ شاید پریشان ہی ہو گئے۔ اس قدر Swag نے دل موہ لیا سہیل احمد کا۔ اس موقع پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ صرف اداکار ہی بننا ہے۔ مگر یہ فیصلہ تب واپس لے لیا جب اسٹیج کے فنکاروں کی بری حالت دیکھی۔ اور ایکٹر بننے سے توبہ ہی کر لی۔
مگر سہیل احمد کی قسمت میں ایکٹر بننا لکھا تھا۔ اور وہ ایسے کہ 2 ماہ بعد ان کے کالج میں محمد علی صاحب بطور چیف گیسٹ آئے۔ وہ مرسڈیز سے اترے۔ کالا پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور سرخ ٹائی لگا رکھی تھی۔ ان کی Personality دیکھ کر تو دم بخود رہ گئے سہیل احمد اور ایکٹر بننے کا فیصلہ ایک بار پھر کر لیا۔ مگر اب کی بار پکا فیصلہ۔ اور پھر پہلا ٹی وی ڈراما 'فشار' کیا۔ اس میں سٹوڈنٹ لیڈر کا رول نبھایا اور پہلے ڈرامے سے ہی ہٹ ہو گئے۔ مگر ان کے والد ناراض ہو گئے لیکن کچھ عرصے بعد ناراضی ختم کر دی۔ رہا تھیٹر تو اس میں بھی سہیل صاحب نے بہت ہی جلد نام بنا لیا۔ اور کیوں نہ بناتے؟ آخر سہیل صاحب کا تعلق گوجرانوالہ سے جو ہے۔ اور گوجرانوالہ نے کامیڈی کے کنگز پیدا کیے ہیں۔ ان میں ظریف، منور ظریف، امان اللہ، ببو برال، مستانہ، دلدار پرویز بھٹی، مزاح لکھنے میں بے مثال حزیں قادری، عابد خان، اشرف راہی اور سہیل احمد صاحب شامل ہیں۔
خیر، سہیل احمد کا پہلا سٹیج پلے تھا 'جمالا تے کمالا'۔ انہوں نے ہمیشہ صاف ستھرا تھیٹر کیا۔ تھیٹر میں بے حیائی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اصل میں سہیل احمد صاحب نے جب تھیٹر میں قدم رکھا اور نام بنایا تو تھیٹر اپنے عروج پر تھا۔ فیملیز ڈراما دیکھنے آتیں۔ کوئی گندا ڈانس ہوتا اور نا ہی ذو معنی جملے۔ آپ یہ سن کے حیران رہ جائیں گے کہ سہیل صاحب کا ڈراما دیکھنے مہدی حسن، محمد علی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، جرنیل، بیوروکریٹس اور یہاں تک کہ صدر اور وزیرِ اعظم کی فیملیز تک آتیں۔ محمد علی صاحب ڈراما دیکھنے آئے تو سہیل احمد کو بولا، آ تو گیا ہوں پر ذرا جلدی چلا جاؤں گا۔ مگر انہیں اس قدر پسند آیا ڈراما اور سہیل صاحب کی پرفارمنس کہ مکمل دیکھ کر ہی گئے۔
لیکن پھر تھیٹر کو بے حیائی نے آن گھیرا۔ اس کی وجہ تھی فلم انڈسٹری کا ڈاؤن فال۔ کیونکہ فلمیں بننا کم ہوئیں تو انڈسٹری کے ایکسٹراز اور بی، سی کلاس ڈانسرز نے تھیٹر کا رخ کیا۔ یقیناً اچھے لوگ بھی آئے، پر بہت کم۔ سنیما گھر ڈراما ہالز میں تبدیل ہونے لگے۔ ایسے میں سہیل صاحب نے 10 برس تک بھرپور جنگ لڑی تھیٹر کو ڈانس اور بے حیائی کے پیروں تلے روندے جانے سے بچانے کی مگر ناکام ہو گئے۔ اور پھر چلتا ڈراما چھوڑ کر چل دیے اور تھیٹر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ جس وقت سہیل صاحب نے تھیٹر چھوڑا اس وقت وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔ اور تھیٹر چھوڑتے وقت ان کی جیب میں صرف 7 ہزار روپے تھے۔ مگر قدرت نے بھرپور ساتھ دیا سہیل احمد کا۔ انہیں مالی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ٹی وی ڈراموں اور شوز وغیرہ سے وہ بہت زیادہ کمانے لگے۔ اور پھر انہوں نے دنیا ٹی وی پر آفتاب اقبال کے ساتھ 'حسبِ حال' شروع کیا۔ کچھ ہی ماہ میں آفتاب اقبال تو یہ شو چھوڑ گئے پر سہیل احمد آج بھی اس سے وابستہ ہیں۔ آج اس شو کو 15 برس ہو گئے ہیں مگر اس میں سہیل صاحب کے کردار ' عزیزی' کی مقبولیت ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر عمر کے افراد میں پاپولر ہے عزیزی۔ اور یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ سہیل احمد جان ہیں حسبِ حال کی۔ ویسے سہیل احمد اس وقت دنیا نیوز کے ڈائریکٹر انفوٹینمنٹ بھی ہیں۔ 'مذاق رات' کی کامیابی کے پیچھے بھی سہیل احمد کا ہاتھ ہے۔
اب آتے ہیں سہیل احمد کے فیملی بیک گراؤنڈ پر۔ سہیل احمد کے والد ڈی ایس پی تھے۔ ان کے نانا ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو ایوب خان حکومت میں بابائے پنجابی کا خطاب دیا گیا تھا۔ ان کے نام سے پنجاب یونیورسٹی میں چیئر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر صاحب نے ہی سٹارٹ کرایا تھا۔ بلھے شاہ، وارث شاہ اور میاں محمد بخش سمیت کئی ایک صوفی شعراء کا کلام بھی انہوں نے ہی Compile کیا تھا۔ وہ 42 کتب کے مصنف بھی تھے۔ سہیل احمد کے خاندان کے پہلے شخص ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہی تھے جو ٹی وی سے وابستہ تھے۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر پروگرام کیا کرتے تھے۔
واپس آتے ہیں سہیل احمد کے فنی کریئر پر۔ سہیل احمد درجن بھر فلموں کی زینت بنے۔ ڈراموں میں بھی کافی عرصے سے ذرا کم کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ ڈراما انڈسٹری لاہور سے کراچی شفٹ ہو چکی ہے اور سہیل احمد حسبِ حال کی وجہ سے شوٹنگ کے باعث کراچی نہیں جا سکتے۔ سہیل صاحب پرائڈ آف پرفارمنس سمیت بے تحاشہ ایوارڈز کو عزت بخش چکے ہیں۔ بس دعا یہی ہے کہ یکم مئی 1963 کو پیدا ہونے والے سہیل احمد ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں اور دنیا کو اپنے فن سے ایسے ہی محظوظ کر سکیں۔