پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد امانت علی خان کی 45ویں برسی

پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد امانت علی خان کی 45ویں برسی
پاکستان کے نامور کلاسیکل و غزل سنگر اور پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ استاد امانت علی خان کی برسی آج منائی جا رہی ہے۔ استاد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 45 برس بیت گئے ہیں۔

شام چوراسی ہوشیار پور پنجاب کے پٹیالہ گھرانہ سے تعلق رکھنے والے استاد امانت علی خان 1922 میں اختر حسین خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گائیکی کی تربیت اپنے والد سے حاصل کی اور گائیکی کا آغاز اپنے بھائی فتح علی خان کے ساتھ جوڑی کی صورت میں کیا۔



استاد امانت علی خان تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان آئے اور لاہور میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے ملی نغموں، غزلوں اور کلاسیکل گیتوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ استاد امانت علی خان کی آواز میں کمال کی نرمی تھی جو سننے والوں پر سحر طاری کر دیتی تھی۔

آتش کی غزل "یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے"



ظہیر کاشمیری کی غزل "موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے"



سیف الدین سیف کی غزل "مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے"



ادا جعفری کی غزل "ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے"



ابن انشا کی غزل "انشا جی اٹھو اب کوچ کرو"



اور ساقی جاوید کا ملی نغمہ "چاند میری زمیں پھول میرا وطن"



یہ تمام ان کے گائے ہوئے بے مثال نغمے ہیں جو ان کو اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں آج تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی کو اپنے منفرد انداز میں پیش کر کے بہت جلد اپنے ہم عصر گلوکاروں، جن میں استاد مہدی حسن خان، استاد غلام علی اور اعجاز حضروی شامل ہیں، میں اپنا ایک الگ مقام اور شناخت بنائی تھی۔

استاد امانت علی خان 52 برس کی عمر میں 17 ستمبر 1974 کو لاہور میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ استاد امانت علی خان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔