مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے نگران وزیراعظم کے معاملے پر صدر مملکت ڈاکٹر کے خط کا جواب دیتے ہوئے مشاورت سے انکار کر دیا ہے۔
شہباز شریف کی جانب سے صدر مملکت کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ آپ نے مجھے دو خط لکھے جس میں نگران وزیراعظم کے لئے چیف جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد کا نام بھی دیا تاہم سپریم کورٹ نے اس سارے معاملے پر ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔
شہباز شریف نے اپنے جوابی خط میں موقف اپنایا کہ آپ سپریم کورٹ کے حکم امتناع کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ آپ جتنی مشاورت کر رہے ہیں، یہ سب قانون اور عدالتی احکامات کی خلاف وزری ہے، اس لئے میں اس مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بن سکتا۔
خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 3 اپریل کو وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد صدر مملکت نے نگران وزیراعظم کے لئے مشاورت کی غرض سے شہباز شریف اور عمران خان کو خطوط لکھے تھے۔
صدر مملکت نے دونوں رہنمائوں کے نام لکھے گئے اپنے خطوط میں کہا تھا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے 3 دن کے اندر کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو دونوں شخصیات 2، 2 نام کمیٹی کو بھیجیں گی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نگران وزیراعظم کے لئے کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوتے تو سپیکر قومی اسمبلی آٹھ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں گے، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان شامل ہوںگے جبکہ کمیٹی سابق قومی اسمبلی ارکان اور سینیٹ ارکان پر مشتمل ہوگی۔
اس پر شہباز شریف نے کہا تھا کہ صدر مملکت، عمران خان اور ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی کی۔ آئین شکن صدر کے خط کا جواب کس طرح دے سکتے ہیں۔ شہباز شریف کے جواب پر ردعمل دیتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو نگران وزیراعظم کی مشاورت کا حصہ نہیں بننا تو ان کی مرضی، ہم دو نام دے چکے۔ 7 دن میں ہمارے ناموں میں سے ایک منتخب ہو جائے گا۔