وزیراعظم عمران خان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس سیشن کو صرف پاکستانی ہی نہیں کشمیری اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ پڑوسیوں سے بہتر تعلقات ہوں۔ بھارت نے جو فیصلہ کیا اس کے اثرات پوری دنیا پر ہونگے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کررہا ہے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بھارت نے جو فیصلہ کیا اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے، پارلیمانی اجلاس کو پوری دنیا اور کشمیری دیکھ رہے ہیں، یہاں سے بھارت نے جو غلط فیصلہ کیا اس پر بڑا مثبت پیغام جانا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ و جدل کا سب سے بڑا اثر معیشت پر پڑتاہے، ہماری حکومت کی پہلی ترجیح پاکستان سے غربت کا خاتمہ تھا، اس لیے ہم چاہتے تھے کہ پڑوسیوں سے بہتر تعلقات ہوں، پلواما واقعے کے بعد بھارت کو سمجھایا کہ پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، بھارت کا پائلٹ پکڑا ، فوری واپس کردیا کیونکہ ہمارا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بھارت ہماری امن کی کوشش کو ہماری کمزوری سمجھ رہا تھا۔
عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے انڈیا کا رویہ دیکھا تو ہمیں لگا کہ وہ ہمیں کمزور سمجھ رہے ہیں۔ تو ہم نے سوچا کے اس کے بعد اب آگے بات نہیں کریں گے۔ ’جب میں امریکہ گیا تو وہاں صدر ٹرمپ کو دعوت دی کہ اس معاملے میں پڑ جائیں ’گڈ فیتھ‘ میں۔جب ہماری بشکیک میں ان سے ملاقات ہوئی تھی تو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے بات کرنے کا۔
عمران خان نے کہا کہ مودی نے الیکشن مہم کے لیے ایسے حالات پیدا کیے۔ اپنے ملک میں جنگی جنون پیدا کیا تاکہ اینٹی پاکستان مہم چلاکر الیکشن جیت سکیں، ہم نے سوچا کےبھارت میں الیکشن کے بعداس سےبات کریں گے، بھارت نے پہلے سے ہی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، بھارت نے کل جو اقدام اٹھایا وہ ان کا انتخابی منشور کا حصہ تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ قائد اعظم محمدعلی جناح ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، وہ انگریز سے آزادی چاہتے تھے لیکن بعد میں اسے ہندو راج کا علم ہوا، قائد اعظم پہلے آدمی تھے جنہوں نے بھارت کا نظریہ دیکھ لیاتھا، آج ہم قائداعظم کو سلام پیش کرتے ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے لیے ایک تعصب ہے، آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی یہ تھی کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں انڈیا میں کئی کانفرنسز میں گیا تو وہاں کئی دوست کہتے تھے کہ پاکستان غلط بنا۔ آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ٹھیک تھا۔ سپیکر اسدد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے قائد اعظم کی 11 اگست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم غلطی سے کہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے، جبکہ قائد اعظم کا نظریہ تھا کہ سب انسان برابر ہیں اور یہ نظریہ انھوں نے ریاست مدینہ سے لیا تھا۔ قائد اعظم نے جب 11 اگست کی تقریر کی تو وہ مسلم کارڈ نہیں کھیل رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ سامنے والا نظریہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہا پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے اپنے طیارے بھیجے تو ہم نے صورت حال کو دیکھا، ہمیں پتہ چلا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تو فیصلہ کیا گیا کہ وہی کیا جائے گا جو انہوں نے کیا، اگر بھارت کے حملے میں کوئی جانی نقصان ہوا ہوتا تو پاک فضائیہ نے بھی ایسے اہداف نشانے پر رکھے تھے جس سے انہیں بھی اتنا ہی نقصان ہوتا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تو پھر جنگ ہوگی، یہ ہو نہیں سکتا کہ بھارت حملہ کرے اور اہم ان کا جواب نہ دیں، اگر ایسا ہوا تو جنگ ہوگی، اس جنگ کا نتیجہ ہمارے حق میں ہوگا یا خلاف جائے گا۔ اگر ہمارے خلاف فیصلہ آیا تو ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ، ایک بہادر شاہ ظفر کا اور دوسرا ٹیپو سلطان کا۔
پلواما واقعے کے بعد بھارت کو باربارکہا دو ایٹمی قوتیں جنگ کی طرف نہیں جاسکتیں، کشمیر میں یہ جدوجہد اب اور شدت اختیار کرے گی، دوبارہ پلواما جیسا واقعہ ہوا تو بھارت پھر ہم پر الزام لگائے گا، سب جانتےہیں کہ پلواما واقعے میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں
عمران خان نے کہا کہ جب کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کی جائے گی تو ردعمل آئے گا اور پلوامہ جیسے واقعات ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھے خوف ہے کہ انھوں نے اب کشمیر میں نسل کشی کرنی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جب ردعمل آئے گا انڈیا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائے گا اور وہ حالات خراب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ہر فورم پر لڑیں گے، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لڑیں گے، دیکھ رہے ہیں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کیسے جائیں، ہم اسے جنرل اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے، دنیا کو بتائیں گےکہ ساری دنیا کو اس کا نقصان ہوگا، کشمیریوں کے ساتھ سارا پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلمان دنیا کی آواز ہے، مغرب کو حقیقت کا نہیں پتا، ہم مغرب میں جاکر بتائیں گے کہ کشمیریوں اور بھارت میں اقلیتیوں سے کیسا ظلم ہورہا ہے، یہ ویسٹرن ورلڈ قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ہمارا کام دنیا میں اس کو اٹھانا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے کہا کہ 71 سال میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرے لیکن مودی نے یہ کردیا، مودی سرکار نے صرف کشمیر میں نہ صرف حقوق نہیں چھینے بلکہ پاکستان کی غیرت اور عزت کو للکارا ہے، اور اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے اور پوری مہذب دنیا کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
شہبازشریف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے،مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیاہے، کشمیر کی صورتحال پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے،کشمیر میں جو کچھ ہوچکا ہے اس پر روایتی مذمت اور متفقہ اور قرارداد سے کام نہیں چلے گا، ہمیں ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کو پتہ چل سکے کہ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے، ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں، اب ہمیں کشمیر پر ڈٹ جانا چاہیے، بھارت نے پاکستان کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالا ہے ہمیں اس کے ہاتھ کاٹ دینے چاہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے وجود کے ساتھ پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان کشمیریوں کا ہے اور کشمیری پاکستان کے ہیں، وزیراعظم نے تاریخی حوالے سے بات کی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھارتی اقدام پر حکومت کی پالیسی اور اس کا جواب کہاں ہے؟ اپوزیشن صبح 11 بجے سے
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں پر ظلم کیا۔ آج کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے جبکہ کشمیری رہنماؤں کو گرفتار اور نظر بند کر دیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اہم موقع پر بھی تمام ممبران اسمبلی موجود نہیں، افسوس بجٹ کے وقت اور آج کے اہم سیشن میں ممبران کی تعداد پوری نہیں ہے۔
بھارتی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ایک قلم کی جنبش سے پنڈورا باکس کھول دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی تاریخی حیثیت ختم کرتے ہوئے وہاں مزید فوج کو تعینات کیا جا چکا ہے، اس معاملے پر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ بھارتی اقدام، عالمی قوانین، کشمیر اور جمہوریت پر حملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر ایشوز پر مسلم ممالک کو اکٹھا ہو جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بغیر کسی حکمت عملی اور منصوبے کے تقریر کی۔ سپیکر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنا ہاؤس مکمل کریں، حکومت نے ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کا اقدام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم کی ٹویٹ یا تقریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ملک میں نہیں ہیں لیکن ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی چیخ وپکار پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔