ضلع مہمند میں ایف سی کے (شیعہ) اہلکار نور حسین کو ساتھی (اہل سنت) اہلکاروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔ ایف سی اہلکار کا تعلق ضلع کرم کے گاؤں بغدی سے ہے اور اس کے والد صوبیدار احمد حسین بھی ایف سی سے ریٹائرڈ ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سپاہی نور حسین اپنی ڈیوٹی مکمل کرکے لگ بھگ دن ایک بجے واپس جا رہے تھے کہ ساتھی اہلکار نے راستے میں پیچھے سے گولی فائر کی جو بائیں کندھے کے نیچے پیوست ہونے کے بعد سینے کو چیرتی ہوئی آگے کی طرف نکلی۔ پہلے فائر کے بعد جب واپس مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی تو آگے کی طرف ایک اور فائر کے شواہد ملے جو پیچھے کی طرف اسی زخم سے نکلے۔ گولی لگنے سے سپاہی نور حسین شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیے گئے، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ یہ سب احوال شہید نور حسین کے قریبی رشتہ داروں نے سنایا، جو زخمی کو دیکھنے ضلع مہمند گئے اور جنازہ واپس لائے۔
جب پیواڑ میں شہید عارف حسین الحسینی کی برسی منائی جارہی تھی تو ایک کلومیٹر فاصلے پر موجود گاؤں بغدی میں سپاہی نور حسین شہید کی تدفین رات دو بجے کر دی گئی۔
ایف سی اہلکاروں نے قتل کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن شواہد بالکل برعکس ہیں۔ آٹھ اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں تاکہ قتل کے محرکات اور مجرم کا تعین ہوسکے۔
مقتول نور حسین جرمنی سے واپس آ کر ایف سی کا حصہ بنے تھے لیکن بدقسمتی سے مذہبی جنونیت کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے۔ گھر والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقتول اہل سنت اہلکاروں کے ساتھ وقتاً فوقتاً مذہبی بحث کیا کرتے تھے۔ پاک افواج پاکستان کی بقا اور سلامتی کا ضامن ادارہ ہے لیکن جنرل ضیاالحق نے اس عظیم ادارے میں صرف ایک مکتبہ فکر کے علما بھرتی کر کے دیوبندائز کرنے کی کوشش کی، جنہوں نے پاک فوج کو جہاد کے جذبے سے سرشار تو کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ تکفیریت اور سپاہ صحابہ کے نظریے کے بیج بوئے جو خود اس عظیم ادارے کے لئے وبال جان بن چکے ہیں۔
ایف سی چونکہ پاک افواج کا حصہ ہے لہذا پاک افواج میں اس طرح واقعات شاذونادر ہی رونما ہوتے ہیں لیکن اس طرح واقعات کی تحقیقات اور ملزموں کے بارے معلومات سامنے آنا ناممکن ہے۔ ایف سی کی تشکیل قبائلی قبیلوں پر مشتمل ہے اور ضلع کرم کی طوری، بنگش سمیت بڈاخیل اور ضلع اورکزئی سے ایک بڑی تعداد میں اہل تشیع اہلکار حصہ ہیں جو پاکستان کے طول و عرض میں تعینات ہیں۔ ان شیعہ اہلکاروں کے لئے محرم میں شیعہ علما کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے (خرچہ اہلکار جیب سے کرتے ہیں) اور باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک جہاں بھی ایف سی میں شیعہ اہلکار موجود ہیں وہاں امام بارگاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف شدت پسند مولویوں کو بھرتی کر کے نفرت پھیلائی جاتی رہی ہے جس سے کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
آرمی پبلک سکول، جی ایچ کیو، مہران بیس، بنوں جیل، ڈی آئی خان جیل بریک حملے ہوں یا سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر حملے، سب میں شدت پسند دیوبندی اہلکار ملوث رہے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے الیاس کشمیری اور طالبان کے عدنان رشید سے لے کر یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ میجرجنرل ظہیر عباسی، بریگیڈئیر معتصم باللہ اور بریگیڈئیر علی خان جیسے لوگ مختلف اوقات میں پاک فوج پر قبضہ کر کے پاکستان کو خلافت اسلامیہ بنانے کے شیخ چلی جیسے پلان سمیت پکڑے گئے اور پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل شاہد عزیز دہشتگرد گروپ (داعش) میں شامل ہو کر کچھ عرصہ پہلے ہلاک ہونے کی خبریں چل رہی ہیں۔
جنرل کیانی کے وقت جنرل راحیل شریف نے اس بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف توجہ دیتے ہوئے پاک فوج میں ایک کاؤنٹر ایکسٹریمزم پلان بنایا اور افواج پاکستان میں تبلیغ پر مکمل پابندی عائد کردی تھی لیکن لگتا ہے اس پالیسی کو اب ترک کیا گیا ہے۔
مقتول نور حسین کا جنازہ آج پارا چنار لایا گیا اور وہ اپنے آبائی گاؤں بغدی میں سپرد خاک کر دیے گئے، لیکن سوال بنتا ہے کہ اس رویے کو ختم کرنے کے لئے کوئی پلان ترتیب دیا جائے گا؟ کیا پاک افواج میں مولویوں کے سائیکلوجیکل (دماغی) ٹیسٹ کیے جائیں گے کہ ان کی کھوپڑیوں میں کتنے زہریلے مذہبی مواد موجود ہیں جو جوانوں کو متاثر کر کے انہیں ایک دوسرے کو قتل کرنے پر ابھارتے ہیں اور نتیجتاً (اللہ نہ کرے) پاکستان شام اور عراق جیسی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔
سپاہی نور حسین کے قتل جیسے واقعات ایک منظم سلسلے کی کڑی اگر نہیں تو لڑی ضرور ہیں۔ سپاہ صحابہ چالیس سال سے نفرت پھیلا رہی ہے اور اب تو تکفیری نظریات کے بیچ معصوم اذہان تک منتقل کرنے کا بھیانک پلان نام نہاد متفقہ اسلامیات کے نصاب کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں کوئی مذہبی و مسلکی ہم آہنگی کی بات نہیں اور صرف ایک دیوبندی مکتبہ فکر کو پوری پاکستان میں نافذ کیا جارہا ہے۔ کیا نصاب میں بچوں کو پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب و مسالک کے بارے میں نہیں بتانا چاہیے تاکہ وہ دیگر مکتبہ فکر کے بچوں کے احترام اور باہمی محبت سے آشنا ہوں؟ پاکستان کو اگر پرامن رکھنا مقصود ہے تو نصاب سے لے کر مدارس اور مساجد تک مانیٹرنگ اور ریفارمز کرنی پڑے گی اور شدت پسند نظریات کی ترویج اور سپورٹ کو ترک کرنا پڑے گا جس کی اب ریاستی سرپرستی کی جا رہی ہے۔
بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے علما کا کردار نہایت اہم ہے لیکن احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی، طاہر اشرفی، منیب الرحمن، خادم رضوی اور اشرف جلالی جیسے علما کے لباس میں کالی بھیڑوں اور بھیڑیوں سے نجات حاصل کرنا ہوگا اور معتدل سکالرز کی آرا پر غور کرنا لانا ہوگا۔ ورنہ اپنے پیٹی بند ایف سی اہلکار بھائی کے ہاتھوں نور حسین جیسے نوجوان قتل ہوتے رہیں گے، سلمان تاثیر جیسے گورنر اپنے گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے، شہباز بھٹی جیسے وفاقی وزیر سڑکوں پر دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے، خودکش دھماکے بھی ختم نہیں ہونگے اور آرمی پبلک سکول جیسے مزید دلخراش واقعات کیلئے بھی تیار رہنا پڑے گا، ملزموں کو عدالتوں میں قتل کیا جاتا رہے گا۔
وقت یہ بھی آپہنچا ہے کہ شیعہ علما ایک پلیٹ فارم پر منظم ہو کر شیعہ ٹارگٹ کلنگ جسے بجا طور شیعہ نسل کشی کہا جا سکتا ہے کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں اور نصاب پر نظرثانی اور اسمبلیوں میں پیش کردہ تکفیری بل کے خلاف متحدہ محاذ قائم کریں ورنہ یہ سلسلے یہاں روکنے والے نہیں۔