Get Alerts

انیسویں صدی کے لاہور میں عزاداری: شیعہ اور سنی مرثیہ کیسے کہتے تھے

انیسویں صدی کے لاہور میں عزاداری: شیعہ اور سنی مرثیہ کیسے کہتے تھے
مولوی نور احمد چشتی نے لاہور کی تہذیب کے بارے میں اپنی کتاب ’یادگارِ چشتی‘ (تصنیف 1859) میں انیسویں صدی کے لاہور میں عزاداری کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ ذیل میں متعلقہ اقتباسات کو چن کر مختلف عنوانات کے تحت پیش کیا گیا ہے:

قربانی سے سالِ نو کا آغاز

’’اہل اسلام کا سالِ نو ماہِ غم، یعنی محرم، جس کو پنجابی زبان میں ’دہے‘ کہتے ہیں، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہینا ہمارے نزدیک بہت غم و الم کا ہے کیوں کہ اس میں جناب حضرت امام حسین سید الشہداء رضی الله عنہ نے مع اپنے وابستگان کے، جو جملہ بہتر تن ایک نسل کے تھے، میدان کربلا میں شربتِ شہادت پیا، اور یہ جنگ یزید ِ پلید سے ہوا“[1]۔

نیاز کا اہتمام

”اس میں سب مسلمان بنامِ حسین دودھ شربت پلاتے ہیں اور ہر گونہ طعام پکا کے نذرِ سید الشہداء تقسیم کرتے ہیں۔ اور غریب غرباء ، دوست اقرباء کو کھلاتے ہیں۔ اس ضیافت کا نام ”نیازِ حسین“ ہے۔ ہر مسلمان اپنے مقدور بھر فاتحہ حضرت کا دلاتا ہے“[2]۔

مجلسِ عزا اور ماتم

’’عشرے سے یہ مراد ہے کہ اول محرم سے دہم محرم تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور مرثیہ خوان اور سامعین کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور مرثیہ خوان کو کچھ نقد اور دستاریں بھی دیتے ہیں۔ اس مرثیہ خوانی کا نام ”مجلس“ ہے جو دو قسم کی ہوتی ہے: ایک سنی کی، ایک شیعہ کی۔

شیعہ کی مجلس کا دستور یہ ہے کہ وہ ایک بڑے مکان میں فرش مکلف بچھاتے ہیں اور سائبان بھی تانتے ہیں اور شمعدانِ فانوسِ قندیل روشن کرتے ہیں۔ اور ایک منبرِ سیاہ رنگ بچھاتے ہیں اور ایک تکیہ اور مسند بھی بیچ میں رکھتے ہیں۔ اور تکیے پر پھولوں کے سہرے ادب کے واسطے رکھتے ہیں۔ اور تمام رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں۔ مرثیہ خوان تین تین، چار چار آدمی مل کر مرثیہ پڑھتے ہیں۔ اور مرثیہ خوانی کو مرثیہ خوانوں کی چوکی کہتے ہیں۔ چونکہ شہادت جناب امام حسین کی واقعہٴ پر غم ہے، لہٰذا جب مرثیہ خوانی ہوتی ہے تو ہر کہ و مہ گریہ و بکا کرتا ہے۔ اور اہلِ شیعہ پگڑین اتار کے ماتم کرتے ہیں اور تبرے کہتے ہیں۔

اور سنی لوگ بھی اکثر عشرہ اور مجلس کرتے ہیں اور مجلس کو شب کہتے ہیں۔ اس میں سب رسمیں برابر ہیں مگر یہ لوگ منبر نہیں رکھتے اور تبرا نہیں بولتے۔

شیعہ لوگوں میں، متصل منبر کے، شدے (علم) بھی رکھتے ہیں۔ اور شدے سے یہ مراد ہے کہ ایک بانس پر بہت اچھے اچھے کپڑے باندھتے ہیں۔ اور بعض بانسوں پر کمان باندھ کر ساتھ اس کے تلواریں لٹکاتے ہیں۔ اور منبر پر گاہ گاہ ایک ان کا فاضل آدمی بیٹھ کر وقائع حضرت کے نثر میں پڑھتا ہے اور مرثیہ نظم میں۔ اور مرثیے کی یہ رسم ہے کہ جب مرثیہ خوان آتے ہیں تو مسند پر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ”فاتحہ“۔ پھر سب حاضرینِ مجلس ہاتھ کھڑے کر کے درود حضرتِ سید الشہداء پر پہنچاتے ہیں۔ پھر مرثیہ خوانی ہوتی ہے۔ سب لوگ سن کر روتے ہیں اور اگر بہت غم ہو تو ماتم کے واسطے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک آدمی کہتا ہے ”ماتمِ حسین“۔ پھر سب شیعہ لوگ سینہ زنی کرتے ہیں اور ”حسین حسین حسین حسین“ بولتے ہیں۔ بعد پاؤ گھنٹے کے ایک شخص کہتا ہے ”ایک نعرہٴ حیدری!“ پھر سب کہتے ہیں: ”یا علی“ اور ماتم بلند ہوتا ہے۔ پھر مرثیہ خوانی ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح ایک دو دفعہ ماتم کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور رات بھر مرثیہ خوانی ہوتی رہتی ہے“[3]۔

سبیل

’’سبیل اس کو کہتے ہیں کہ بازاروں کوچوں میں سائبان تان کر بلیوں سے ایک جگہ بیٹھنے کی بناتے ہیں اور اس پر مٹکے مٹی کے اور چھوٹی چھوٹی ٹھلیاں رکھتے ہیں اور نیچے ان کے سرسبز پتے رکھتے ہیں۔ اور پانی یا دودھ یا شربت ہر شخص کو پلاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’نذرِ حسین پانی یا دودھ یا شربت پی جاؤ‘۔ جس کا دل چاہتا ہے، پی جاتا ہے“[4]۔

حلیم

’’اور اکثر لوگ ان دنوں میں حلیم پکاتے ہیں۔ حلیم سے مراد ہے کہ مکئی اور گیہوں اور گوشت اور مصالحے اور سریت وغیرہ ڈال کر پکاتے ہیں اور سب لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اور بعض شہر میں، کیا سنی کیا شیعہ، یوں مجلسِ امامِ ہمام کرتے ہیں کہ پہلے سب دوست آشنا، غریب غربا کو کھانا کھلایا اور پھر رات بھر مرثیہ خوانی کرائی۔ فجر کو مجلس برخاست ہوئی۔ مرثیہ خوانوں کو دستاریں دیں اور نقد بھی کچھ دیا“[5]،[6]۔

تعزیہ داری اور جلوسِ عزا

’’تعزیہ گویا شکل روضۂ حسین کی ہے۔ تعزیہ سنی شیعہ سب بناتے ہیں۔ پھر دوسرے دن تعزیوں کی گشت کراتے ہیں۔ گشت سے یہ مراد ہے کہ اپنی جگہ سے اٹھا کر سب شہر میں پھرتے ہیں اور پھر اپنے گھر پر لا رکھتے ہیں۔ اور گشت نہم محرم کو ہوتی ہے۔ بعض دن کو اور بعض رات کو گشت کراتے ہیں۔ مگر رات کو خرچ مشعلوں کا زیادہ پڑتا ہے۔ اس کو تعزیہ اٹھانا کہتے ہیں۔

اس میں یہ دستور ہے کہ آگے آگے تاشے بجتے ہیں اور بعض اونٹوں پر بڑے نقارے، یعنی شترے، رکھ کر بجائے جاتے ہیں۔ پیچھے ان کے نشان آدمیوں کے ہاتھ میں اور گھوڑے، ہاتھیوں، اونٹوں پر لے جاتے ہیں۔ اور نقاروں میں سے یہ آواز نکلتا ہے: ’چڑھے دلدل، مرے کافر‘۔ نشانوں کے پیچھے گتکا باز لوگ ہوتے ہیں اور بعد ازاں مرثیہ خوان لوگ۔ اگر رات کا وقت ہو تو مرٹھی اور مشعلیں بھی ہوتی ہیں۔ سب سے پیچھے تعزیہ، جس کو تابوت بھی کہتے ہیں۔ اور تعزیے بہت بہت بڑے بنتے ہیں۔ بلکہ بڑے تعزیوں پر ہزار ہزار روپیہ لگ جاتا ہے۔ اور ہندوستان میں کئی لاکھ روپیہ ایک ایک تعزیے پر خرچ ہوتا ہے۔ اور گشت کا یہ معمول ہے کہ ہزار ہا آدمی تعزیوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہزار ہا عورت مرد مکانوں پر بیٹھ کے دیکھتے ہیں“[7]۔

ذوالجناح

’’اب شیعہ لوگ لاہور میں محرم کی دسویں تاریخ ایک گھوڑا سفید رنگ نقرہ نکالتے ہیں اور اس پر عربی زین باندھتے اور اس کے ہرنے سے زرہ اور خود لٹکاتے ہیں اور دو تلواریں بھی بہ شکلِ ذو الفقار باندھتے اور ایک چادر سفید اس کی پیٹھ پر ڈالتے ہیں۔ اور اس پر لہو کے داغ ڈالتے ہیں اور تیر بھی اس کپڑے میں چھپاتے ہیں۔ اور اس کے گلے میں بطورِ دستورِ عرب ایک دوشالہ باندھتے ہیں اور ایک آدمی آگے سے باگ ڈور اس کی پکڑتا ہے۔ اور سب شیعہ اس کے آگے سر ننگے ہو کر ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ خوانی بھی ہوتی ہے۔ عجیب درد کا وقت ہوتا ہے۔ اگر ہندو دیکھتا ہے تو وہ بھی رو پڑتا ہے“[8]۔



سیاہ لباس

’’اور اکثر شیعہ اور بعضے سنی لوگ بطور ماتم داری سیاہ پوش رہتے ہیں۔ اور تیسرے، اکیسویں، تیسویں، چالیسویں دن فاتحہ دلاتے ہیں“[9]۔

سید احمد بریلوی کے اثرات

قرون وسطیٰ کے برصغیر میں شیعہ اور سنی مل کر محرم مناتے تھے۔ اگرچہ عزاداری کے آداب و رسوم میں کچھ اختلاف پایا جاتا تھا لیکن اس کی بنیاد پر تصادم نہیں ہوتا تھا۔ اپریل 1802 میں نجد سے جانے والے وہابی لشکر نے کربلا کو تاراج کیا، مزارات تباہ کیے اور پانچ ہزار کے قریب شیعہ قتل کر کے ان کے مال و اسباب کو لوٹا۔ اس سانحے نے برصغیر میں شاہ ولی الله کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی حوصلہ افزائی کی۔ ان لوگوں نے 1818 سے 1820 کے سالوں میں اودھ، بہار اور بنگال میں سینکڑوں امام بارگاہوں پر حملے کیے۔ باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:۔

’’دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا: ’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہیے‘۔ سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے“[10]۔

کنہیا لال نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ میں لکھا ہے:

’’1849 میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذوالجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیئے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیئے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب ڈپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی“[11]۔

یادگار چشتی کے ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت کے زوال کے بعد سید احمد بریلوی کے پیروکار، جنھیں اس زمانے میں وہابی کہا جاتا تھا، عزاداری پر حملے کرنے لگ گئے تھے:

’’اہلِ اسلام میں اب ایک اور فرقہ نکلا ہے اور اس کو وہابیہ فرقہ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں دیکھتا ہوں کہ اکثر عالم لوگ اس طرف متوجہ ہیں۔ العیاذ باللہ! خدا ان کے عقائد کو درست کرے“[12]۔

’’کئی لوگ مرثیہ خوان اور کھیلنے والوں کو دستاریں دیتے ہیں اور مرثیہ سن کے خوب روتے ہیں۔ بعض نافہم سن کر ہنسی کرتے ہیں‘‘[13]۔

’’اور یہ ماتم کرنا شرع میں بالکل منع ہے۔ ان باتوں سے کئی دفعہ سنی شیعہ میں دنگا فساد ہو جاتا ہے‘‘[14]۔

”اور ہر بازار میں لوگ واسطے دیکھنے کے جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف سے گلاب کا عرق اس (ذوالجناح) پر چھڑکا جاتا ہے مگر بعض تعصب سے اس کو ہنسی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو ’’مدد چار یار‘‘ کہتے ہیں اور اکثر اس پر کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب میجر کر کر صاحب بہادر لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے، تب سنی شیعہ میں بہت فساد ہوا اور بہت لوگ مجروح ہوئے۔ تب سے اب ہمیشہ شہر لاہور میں ڈپٹی کمشنر صاحب اور کوتوال اور تحصیل دار اور سب تھانے دار لوگ اور ایک دو کمپنی پلٹن کی اور ایک ملٹری صاحب اور ایک رسالہ، شیعہ لوگوں کی محافظت کے واسطے گھوڑے کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ کوئی سنی دست درازی نہ کر سکے۔ مگر تو بھی وہ لوگ باز نہیں آتے“[15]۔

کربلا گامے شاہ

’’الغرض شیعہ لوگ گھوڑے کو امام باڑے میں لے جاتے ہیں اور وہاں جا کر خوب ماتم کرتے ہیں۔ اور بطورِ نیاز وہاں کھانا کھلاتے ہیں۔ اور گھوڑے کا اسباب اتارتے ہیں۔ شہرِ لاہور میں امام باڑہ بھاٹی دروازے کے باہر متصل برف خانے کے ہے اور وہاں مدت سے گامے شاہ نام شخصِ فقیر اب تک رہتا ہے“[16]۔

مولوی غلام حسین صاحب

’’اور دہم صفر کو شہرِ لاہور میں محلہٴ چابک سواراں، مسجد چینی میں عرسِ مبارک جناب مولوی غلام حسین صاحب چشتی کا ہوتا ہے۔ یہ مولوی صاحب بڑے معارف آگاہ اور صاحبِ عبادت و ریاضت تھے۔ پچیس برس حضرت نے استراحت نہیں فرمائی اور مسکینی میں سید السالکین اور فنا فی الحسین تھے۔ صاحبِ رقت ایسے تھے کہ اگر کہیں نامِ سرورِ دو جہاںؐ یا حسینؑ آ جاتا تھا تو عالمِ گریہ میں بے ہوش ہو جاتے تھے۔ اور کرامات ان کی ہزار ہا مشہور، سب روٴسائے پنجاب ان کو قبلہ و کعبہ جانتے ہیں۔

اس عرس میں نان حلوہ تقسیم ہوتا ہے اور چراغاں خوب روشنی سے ہوتی ہے۔ روٴسا، فقراء سب حاضر ہوتے ہیں اور اس روز نذریں بھی چڑھتی ہیں اور گھنٹہ دو گھنٹہ مرثیہ خوانی بھی وہاں ہوتی ہے“[17]۔




[1] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[2] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[3] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230 ۔ 232، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[4] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 233، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[5] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 238، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[6] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 236، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[7] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 233، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[8] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 236، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[9] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 238، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[10] B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press .(1982)

[11] کنہیا لال، ”تاریخ لاہور“، صفحہ 305، وکٹوریہ پریس لاہور، (1884)

[12] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 152، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[13] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 234، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[14]مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 234، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[15] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 237، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[16] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 237، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

[17] مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 246 ۔ 247، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔