شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا

شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا
دوستووسکی کا شہرۂ آفاق ناول Crime and Punishment (جرم و سزا) ایک تنہا قاتل کے بارے میں تھا۔ البتہ مفکرِ پاکستان کا ماننا ہے کہ مخصوص حالات میں ایک انفرادی فعل کی معافی ممکن ہے لیکن خدا معاشرتی جرائم کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ اس کے اثرات زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ اور پھر بہت سی تباہیوں کے ذمہ دار تو اوپر بیٹھے چند افراد ہوتے ہیں لیکن ان کا خمیازہ صرف عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے جو جرم میں شریک تک نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سمجھ میں آیا کہ معاشرے کی سطح پر ہونے والے جرائم کی سزا محض ذمہ داروں کو نہیں ملتی۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اگر عوام حکمرانوں کی غلطیوں کے خلاف جدوجہد نہ کریں تو وہ بھی شریکِ جرم تصور ہوتے ہیں۔ لہٰذا موت کے بعد کیا ہونا ہے، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ عوام کے دشمنوں کو سب سے اونچے درختوں سے لٹکایا جائے۔ ایسا ہمیشہ تو ممکن نہیں ہو پاتا لیکن تاریخ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر کئی مرتبہ اسی دنیا میں بھی جوابدہی ہوئی ہے۔

افغانستان پر سوؤیت حملہ صرف بریزہنیو اور اس کے چند ساتھیوں کا فیصلہ تھا جنہوں نے روسی فوج اور انٹیلیجنس کے خبردار کرنے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا۔ مرا تو وہ ایک طبعی موت لیکن اس کے اقدامات کا نتیجہ ایک سلطنت کے زوال کی صورت میں نکلا۔ اور اگر آپ اس کی ذمہ داری روس کے طرزِ حکومت پر ڈالیں جہاں آزادی اظہار کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاتا تھا، تو دنیا کی سب سے بری جمہوریت نے بھی بالکل وہی غلطی دہرائی۔ 911 کے بعد افغانستان پر امریکی چڑھائی کو بے شک ملک کے اندر اور باہر وسیع پذیرائی حاصل رہی ہو لیکن اس وقت بھی ایسی آوازیں تھیں جو احتیاط کا مشورہ دے رہی تھیں۔ اس کے باوجود دنیا کی واحد سپر پاور کو اس پروجیکٹ کو بند کرنے میں دو دہائیاں لگ گئیں جس کے بارے میں پہلے دن ہی واضح تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور جس نے صرف چند بڑے سرمایہ داروں کے مفادات ہی کا تحفظ کیا۔ اور چونکہ اس عظیم الشان حادثے کے معماروں کو مجرم تو درکنار ملزم بھی نہیں ٹھہرایا گیا، وہ تباہی پھیلانا جاری رکھیں گے۔

یوکرین بحران کے نتیجے میں اب یورپ کی باری آ گئی ہے کہ وہ 'بڑے بھائی' کے دامن سے لٹک کر جو دہائیوں سے امن اور خوشحالی سے محظوظ ہو رہا ہے، اس کا حساب دے کہ جب امریکہ دنیا بھر میں غریبوں کے بچے مار رہا تھا، یورپ اس کا عالمی گماشتہ بنا ہوا تھا۔ پاکستان میں ہم نے اس سے بھی برا کیا۔ اس چار کے ٹولے کو اعلیٰ ترین عہدوں سے نواز گیا جس نے کارگل کی آگ میں ملک کو جھونک ڈالا، وہ بھی اہم ترین سٹیک ہولڈرز سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر جو بعد ازاں خود بخود اس تنازعے میں گھسیٹے گئے۔ روزِ قیامت یا تاریخ میں ان کو جو بھی سزائیں ملیں اس سے نہ تو ان جانوں کا ازالہ ہوگا جو اس کی بھینٹ چڑھیں اور نہ ہی اس نقصان کی تلافی ہوگی جو کشمیر کاذ کو ان کی اس حرکت نے پہنچایا۔ اور اس محاذ پر بھارت بھی ہمیشہ حالتِ جنگ میں رہے گا۔ کشمیر میں بہنے والا لہو بہہ کر ہندوستان کے میدانوں کو سیراب کرتا رہے گا کیونکہ اس کی وجہ دلی کی غیر انسانی پالیسیاں ہیں۔

یہاں بھی بے وقوفی یا خودغرضی میں کیے گئے فیصلوں کی سزا یہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان میں رواں برس کے آغاز میں ہونے والی حکومت کی تبدیلی کے صحیح اور غلط سے متعلق بہت بحث ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد جو کچھ ہوا یہ ہمارے سیاسی پنڈتوں کے لئے بھی حیرت انگیز تھا۔ عمران خان کے لئے سامنے آنے والی عوامی حمایت حیران کن تھی جس کی وجہ بعد میں عوام کے تین میں سے ایک برائی کو چننے کی مجبوری بتائی گئی۔ ظاہر ہے ہماری تاریخ دیکھی جائے تو یہ توجیہ درست نظر آتی ہے – اور پھر یہ ایک شخص کی انفرادی پسند بھی ہو سکتی ہے جس کی ممکن ہے کوئی توجیہ ہو ہی نا۔ کیسے وہ لوگ جو عمومی طور پر عمران خان کے چار سالہ دورِ اقتدار میں ان کی مخالفت کرتے رہے یکایک ان کی حمایت میں آپے سے باہر ہو گئے، یہ سمجھنے سے اب بھی بہت سے تجزیہ کار قاصر ہیں۔ ان کی یہ تشخیص منطقی نظر آتی ہے کہ ان 'باغیوں' کو عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ اور امریکی استعمار مخالف بیانیے نے لبھا لیا (اور خدارا باغیوں سے مراد یہاں انقلابی نہ لی جائے)۔

ایسی صورت میں اسلام آباد میں اقتدار میں آنے والی نئی انتظامیہ کو جتنے بڑے چیلنجز کا سامنا تھا، انہیں تو چاہیے تھا کہ یہ عوامی موڈ کو بھانپتے ہوئے اسی سمت میں چلتی۔ لیکن شریف حکومت کو نہ جانے کس نے یہ مشورہ دیا کہ ایسے حالات میں عمران خان سے زیادہ فوج اور امریکہ کا وفادار نظر آنا اس کی صحت کے لئے بہتر ہے۔ دوسری طرف عمران خان خود کو دوسرے دو A’s یعنی اللہ اور عوام کا نمائندہ بنا کر پیش کر رہا تھا۔ اندھے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ دنیاوی طاقتوں کے مطالبات پورے کرتے ہوئے عوام کے ساتھ ہمدردی دکھانا ناصرف ضروری تھا بلکہ یہ ممکن بھی تھا۔ بلکہ شہباز شریف کو تو وہ ایک تقریر یاد کرنا چاہیے تھی جس نے ایک دن میں ان کے بھائی کو ایک عوامی لیڈر بنا دیا تھا۔ 17 اپریل 1993 کو نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ 'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا' اور اس تقریر نے ان کو شاید وقتی مشکلات سے دوچار کیا ہو لیکن ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے فائدے اس کے نقصانات سے زیادہ ہی تھے۔

تزویراتی گہرائی اور تزویراتی مدافعت جیو پالیٹکس میں مستند نظریات سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ غیر مقبول لوگوں کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث عوامی نظر میں معتوب ٹھہرے ہیں۔ حالانکہ ان پر عمل کرنے والوں نے اپنے لئے، اپنے ملک کے لئے بہت سے فوائد حاصل کیے ہیں۔ جرمنی مارشل پلان کی وجہ سے ایک معاشی قوت بن کر نہیں ابھرا بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے پہلے وزیرِ خزانہ ارہارڈ کی پالیسیوں کے باعث ایک طاقتور معیشت بننے میں کامیاب ہوا جس نے تین قابض ممالک کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ اور پاکستان بھی ایک جوہری طاقت نہ بن پاتا اگر اس کی سولین اور ملٹری لیڈرشپ غلام اسحاق خان کی قیادت میں ہماری تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ موڑ پر دنیا کے دیے گئے احکامات کو ماننے سے انکار نہ کرتی۔

شہباز شریف کی سب سے بڑی غلطی لہٰذا یہ تھی کہ وہ تاریخ کے ایک اہم ترین موڑ پر عوام کی نبض کو پڑھنے میں ناکام رہے۔ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے تسلط سے تنگ اور اپنی قبائلی ذہنیت سے باہر آ چکے تھے۔ ایسے موقع پر یہ تصور کرنا کہ وہ اندھوں کی طرح نئے حکمران کے بیٹے کو پنجاب کا حکمران تسلیم کر لیں گے ناصرف بیوقوفی کی انتہا تھی بلکہ یہ تاریخ کی مخالف سمت میں بہنے کے مترادف تھا۔

ہمیشہ کی طرح لیکن ان برے وقتوں میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ تمام لیڈران عوام کے خیالات میں موجود تلاطم سے ہوشیار رہیں۔ یہ ایک عوامی سیلاب ہے اور اگر اس سے سمجھداری سے جھوجھا نہ گیا تو یہ سب کچھ بہا لے جائے گا اور عوام کو ان کے حقیقی منصب پر جا بٹھائے گا۔ اور چونکہ ایک اور طاقت کی طرح جس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں آپ مگن ہیں، آپ خود بھی طاقت کے زعم میں مبتلا ہیں، آپ اس تنبیہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اگلا عوامی ریلا بھی آیا ہی چاہتا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی ISI اور ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔