پنجاب میں توانائی کے صارفین، خواہ وہ گھریلو ہوں یا تجارتی، شمسی توانائی کی جانب مننقلی کا فیصلہ متغیرہ ماحولیاتی اثرات کے بجائے اپنی مالی ترجیحات کے مطابق کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ کوئلہ، تیل اور گیس پر مبنی توانائی کو چھوڑ کر شمسی توانائی کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو اُن میں انسان دوست اور ماحول دوست توانائی کا استعمال ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور بمطابق عمومی تقاضوں کے بجلی کی مد میں اپنا خرچ کم کرنے کی کوشش اولین حیثیت رکھتی ہے۔ یہ انکشاف اسلام آباد کے ایک تحقیقاتی ادارے Alternate Development Services (ADS)کی طرف سے کی گئی تحقیق 'Green Financing : An Inceptive Analysis of Commercial Banks' میں سامنے آیا ہے۔
رپورٹ کے مصنف امجد نذیر نے رپورٹ کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حالیہ دور میں گرین فنانسنگ کو ماحول دوست تدابیر اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کی ایک بنیادی شرط تصور کیا گیا ہے۔ اصولی طور پر اس حمکت عملی کا مقصد ایسے منصوبوں کی مالی معاونت ہے جو مثبت ماحولیاتی اثرات رکھتے ہوں، جیسا کہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے، آبی توانائی کے چھوٹے منصوبے، آلودگی اور زمین کُش ٹھوس اور مائع فاضل مواد کو ختم کرنے، زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور تازہ پانی کے وسائل، جنگلات اور چرند، پرند کو بچانے کے منصوبے وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ بالا تحقیق میں بینکوں کی جانب سے پاکستان میں گرین اور سولر فنانسنگ کے موجودہ منظر نامے کا ایک جامع شماریاتی اور بیانوَی جائزہ فراہم کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گرین فنانسنگ یا دوسرے لفظوں میں محفوظ توانائی کے پراجیکٹس کیلئے قرضہ فراہم کرنے والے بینکوں کی تعداد اور صارفین کے رحجان میں حالیہ سالوں میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ متعلقہ تحقیقی سروے سے برآمد ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2021 میں سبز توانائی پر منتقلی کے لئے قرضہ فراہم کرنے والے بینکوں کی تعداد 40 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
ساتھ ہی ساتھ، اِس تحقیق میں گرین فنانسنگ کی راہ میں متفرق رکاوٹوں پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے جیسا کہ بنیادی مالی شرائط، معلومات میں کمی، تیزی سے بدلتی ہوئی پالیسیاں، کسی سکیم کی عدم موجودگی میں ناقابلِ برداشت شرحِ سود اور سیاسی عدم استحکام وغیرہ۔ یہ تحقیق سرکار اور بالخصوص سٹیٹ بینک کے کردار کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے، جس میں شرحِ سود کو ممکنہ حد تک کم رکھنا، آگہی اور تربیت فراہم کرنا، صنعتی اور چھوٹے کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا اور نیٹ میٹرنگ کی سہولت میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں، جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع اور اِستعمال کو بڑھانے میں مدد فراہم کر سکتے ہوں۔
یہ تمام پہلو گذشتہ ہفتے ملتان میں ہونے والی مذکورہ تحقیق کی تقریب رونمائی میں زیر بحث آئے جس میں صنعت کاروں، ماحولیاتی ماہرین اور کارکن، مالیاتی ماہرین، ترقیاتی پیشہ ور افراد، صحافیوں اور دیگر احباب نے شرکت کی۔
اس تقریب میں ملتان میں بڑھتی ہوئی سموگ پر بھی بات ہوئی۔ ماہرین نے اس مسئلے کو صنعت، خِشت سازی اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے خارج ہونے والی کاربن سے جوڑا۔ انہوں نے جلد کاربن کی مقدار کو کم سے کم کرنے، شمسی توانائی اور متبادل توانائی کے دوسرے ذرائع گرین کے استعمال کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ماہرِ توانائی اور ماحولیات، پروفیسر محمد سلطان نے کہا کہ 'ملتان میں سموگ کی شدت ماحولیاتی تبدیلی کا ایک خطرناک اظہار ہے۔ گرین فنانسنگ صاف ستھری توانائی کے جدید ذرائع متعارف کروا سکتی ہے اور ملتان اور اس کے علاوہ تمام جگہوں کی ہوا کے معیار میں بہتری لانے میں معاون کار ہو سکتی ہے'۔
ماحولیاتی تحفظ کے کارکن جودت سید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی (EPA)کے پاس ہوا کے معیار کی پیمائش کا آلہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ 'ہمیں معلوم ہی نہیں کہ جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ کس قدر زہریلی اور مضر صحت ہے'۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ملتان کے سموگ کے مسئلہ کا حل کی طرف پہلا قدم ہوا کے معیار کو ماپنا اور متقاضی اقدامات کرنا ہے۔
قصہ مختصر گرین فنانسنگ کی آسان اور قلیل مُدت میں فراہمی اِس طرح کے بیش تر مسائل حل کر سکتی ہے اور لوگوں پر ایندھن کی تہذیب کا بوجھ کم کرنے میں تعاون کر سکتی ہے۔ دیر تو بہت ہو چکی ہے لیکن دیر آید درست آید کے اصول کے تحت اب بھی وقت ہے کہ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست اور انسان دوست توانائی کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے تا کہ ہماری زمین، ہوا، فضا، مٹی اور پانی کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے شفاف اور قابلِ حیات بنایا جا سکے۔ پاکستان کی ترقی کے پائیدار مُستقبل کی راہ میں گرین فنانسنگ کی مختلف سکیمیں اور پلان بلاشبہ ایک سنگِ میل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
**
اس رپورٹ کی تیاری میں امجد مہدی بھی شریک ہیں۔