لاہور ہائیکورٹ نے بغاوت کیس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے بھتیجے عالمگیر وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیش کاروں کی جانب سے کیے گئے آڈیو اور ویژول ثبوت مثبت آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنا پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ اس دوران عالمگیر وزیر کے وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ان کے موکل بے قصور ہیں اور کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں جس کی بنیاد پر ان کے موکل کو مسلسل حراست میں رکھا جائے۔
بعد ازاں عدالت عالیہ نے دونوں وکلا کے دلائل سننے کے بعد عالمگیر وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
یاد رہے کہ 29 نومبر کو ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے والے عالمگیر وزیر مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئے تھے لیکن بعد ازاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ پنجاب پولیس کی حراست میں ہیں اور ان سمیت مارچ کے دیگر شرکا اور منتظمین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سول لائن پولیس نے عالمگیر وزیر اور طلبہ یکجہتی مارچ کے دیگر نمایاں شرکا کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 124 اے (بغاوت)، 290 (عوام کو پریشان کرنے) اور 291 اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم (ریگولر) ایکٹ 2015 اور پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
عالمگیر وزیر کے خلاف درج ایف آئی آر میں شکایت کنندہ ایس آئی محمد نواز نے کہا تھا کہ وہ پیٹرولنگ پر تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ عمار علی جان، فاروق طارق، اقبال لالہ، عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل خان کی قیادت میں 250 سے 300 افراد ریلی نکالی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 29 نومبر کو ملک بھر میں اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی سمیت مختلف مطالبات کی منظوری کے لیے 50 شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔