'عمران خان نے جیل بھرو تحریک کی بات اپنے کارکنوں کے لیے کی ہے، انہوں نے اپنی گرفتاری کی بات نہیں کی'

'عمران خان نے جیل بھرو تحریک کی بات اپنے کارکنوں کے لیے کی ہے، انہوں نے اپنی گرفتاری کی بات نہیں کی'
عورتوں پر ظلم کرنا اور ان کے حقوق سلب کرنا پشتونوں کی روایت نہیں ہے، اس کام کو کسی ایک قوم کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک سوچ کا نام ہے ، عمران خان بھی اسی سوچ کے حامل شخص ہیں۔ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کی بات اپنے کارکنوں کے لیے کی ہے انہوں نے اپنی گرفتاری کی بات نہیں کی، روزانہ کی بنیاد پر لوگ زمان پارک پہنچے ہوتے ہیں ، وہ وہاں پر ذلیل ہو رہے ہوتے ہیں اور عمران خان ان کو ملتے تک نہیں ہیں۔ عمران خان کے کارکن گرفتاری نہیں دیں گے مگر پھر بھی سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری کی خبریں گردش کر رہی ہوں گی۔ اعظم سواتی نے سوشل میڈیا پر ماں کی گالی دی تھی، جس کے بعد ان کے اوپرمقدمہ بنا تھا، تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتاری دینے کے لیے قانون توڑنا ہو گا۔ یہ کہنا ہے تجزیہ کار مزمل سہروردی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو ' خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ عمران خان تو کبھی پاکستان کے غیر جانبدارصحافیوں کو انٹرویو نہیں دیتے، ان کو اس انٹرویو کے بارے میں کسی نے غلط بریف کیا ہے، اب وہ دوبارہ آئزک کو انٹرویو نہیں دیں گے، وہ صرف خاص لوگوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو ان سے وہی سوال پوچھتے ہیں جوعمران خان چاہتے ہیں، عمران خان آئندہ ایسا کوئی انٹرویو نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اوپر کوئی سیریس کیس نہیں، ٹیریان اگر ان کی بیٹی ہے تو ان کو بتانا چاہیے، اس کا فیصلہ تو2018 میں ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ 28 نومبر تک عمران خان کی ساری حکمت عملی ٹھیک تھی مگراب سب کچھ ناکام ہو رہا ہے، اس کا مطلب ہے ان کے پیچھے مقتدرحلقوں کی حمایت تھی۔ محمد خان کو بھٹی کے اوپرسیرئس نوعیت کے مقدمات ہیں ، ان کے اوپر منی لانڈرنگ کے کیس بھی ہیں، ان کے خلاف سیاسی انتقام کی کاروائی نہیں ہو رہے۔

صحافی امبر رحیم شمسی نے کہا کہ عمران خان کے انٹرویو میں تضاد تھا کہ وہ ایک طرف تو قانون کی بالادستی پہ مغرب کی مثال دیتے ہیں مگر دوسری طرف وہ خواتین کے حقوق پہ پاکستان کے کلچراور معاشرے کی بات کرتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ وہ اور فوج ایک پیج پر تھے، پھر ان کے درمیان تعلاقات خراب ہو گئے،عمران خان کا انٹرویو تضادات سے بھرپورتھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس جیل بھرو کی تحریک کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھی، ہو سکتا ہے کہ حکومت کسی کو بھی گرفتارنہ کرے، عمران خان نے یہ ایک کمزور پتہ کھیلا ہے۔ عمران خان سول نافرمانی، لانگ مارچ، اورجیل بھر تحریک کے کارڈ کھیلتے رہتے ہیں۔

تجزیہ کار فوزیہ یزدانی عمران خان نے جیل بھرو تحریک کے لیے 90 دن انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کو مخصوص صحافیوں اورٹک ٹاکرز کو انٹرویو دینے کی عادت ہو گئی ہے، ان کو نیویارکر کے صحافی کو انٹرویو دینے کی کیا ضرورت تھی، اس انٹرویو میں ان کو پلے ہوئے بھی کہا گیا، ناجائزبچوں کے بارے میں بھی بات ہوئی، اور پی ٹی آئی کو قدامت پسند پارٹی بھی کہا گیا ۔ افغانستان میں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں بھی بات ہوئی، اور خواتین کے تحفظ کے بارے میں جو بھی سوالات ہوئے عمران خان کا ان کا صیحح جواب دینے کی بجائے اس کو عورتوں کی تعلیم کی طرف لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے، جیل بھرو تحریک بھی کمزورہے، اس کا فائدہ بھی حکومت کو ہو رہا ہے، 90 دن کے دوران تو رمضان آ جائے گا، عید کے دوران تو لوگوں کو کوئی قید نہیں کرے گا۔

تجزیہ کار مرتضی سولنگی نے کہا کہ عمران خان مغربی ملکوں کی شخصی آزادی کی بات کرتے ہیں مگراپنے ملک کے اندر وہ والی آزادی صرف اپنی ذات کو دیتے ہیں، یہ آزادی عوام کے لیے نہیں ہے۔ عمران خان پاکستان کے غیر جانبدار صحافیوں کو انٹرویودیں گے یہ سوچنا ایک دیوانے کا خواب ہو گا، پاکستان کے میڈیا کو چاہیے کہ ان کے انٹرویو کے دوران عوام کو ساتھ ساتھ سچ بھی بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے کہا ہے کہ 28 نومبر تک تو ان کی حکومت نہیں تھی،اس کا مطلب ہے کہ عدلیہ اور باقی اداروں سے عمران خان کوتب تک حمایت مل رہی تھی۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ نے کہا کہ عمران خان اپنی مرضی کے لوگوں کو انٹرویو دیتے ہیں، شہباز شریف سے انٹرویو کے دوران سخت سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں، اور نواز شریف تو ویسے ہی انٹرویو بہت کم دیتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے پشتونوں کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ پھیلایا ہوا ہے، ان کو فرسودہ ،سخت گیر، عورتوں پر ظلم کرنے والے اورتاریک دور کے انسان کے طور پر دکھایا گیا ہے، سوشل میڈیا اور منظور پشتین جیسے رہنماؤں کی وجہ سے اس تاثرمیں کمی آ رہی ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔