عوام مخلص اور جوابدہ قیادت کو منتخب کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں

جمہوریت عوام کو حکمرانی کا حق تو دیتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ عوام حکمرانی کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں، جانتے ہوں کہ اپنی طاقت کو کیسے محفوظ ہاتھوں کے سپرد کرنا ہے۔ جمہوریت سے مستفید ہونے کے لئے حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

عوام مخلص اور جوابدہ قیادت کو منتخب کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں

ویسے تو طاقت کا سرچشمہ، جمہوریت کا مغز، سیاست کا محور، ریاست کی ملکہ اور ہر سیاسی جماعت کے منشور کا مرکز عوام ہی ہوتے ہیں مگر پاکستان جیسی ریاست کے اندر محض انتخابات کے دنوں میں اور وہ بھی دکھاوے کے طور پر اور اس کے بعد سیاست دان عوام کے مینڈیٹ کی تحریم میں حکمران بن جاتے ہیں اور عوام تو پھر بھی عوام ہی رہتے ہیں۔ حکمرانوں کی عظمت اور حفاظت کے لئے پولیس کے سکواڈ جبکہ رہنے کی جگہ ریڈ زون جہاں گیدڑ، گدھوں کا داخلہ تو جائز ہے مگر عوام کا ممنوع ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں اور نا ہی میں از راہ استعارہ کہہ رہا ہوں بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے شاہراہ جمہوریت پر پرائم منسٹر ہاؤس کے سامنے دن کی روشنی میں گیدڑ دھونگلے دیتے دیکھے ہیں مگر عام آدمی کا داخلہ وہاں کے لئے خطرے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟

تھومس جیفرسن جو ایک امریکی سفارت کار، وکیل، فلاسفر، ریاست کے بانیوں میں شمار ہونے والا، ان کی آزادی کی دستاویزات کا بنیادی مصنف اور امریکہ کے تیسرے صدر کے طور پر اس نے قوم کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کہا تھا؛

.'The democracy will cease to exist when you take away from those who are willing to work and give to those who would not'

جمہوریت اس وقت تباہ ہو جاتی ہے جب اس کی سربراہی، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان سے لے کر نکموں کو دے دی جائے۔

اب اس کو دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تو حکومت کی باگ ڈور جیسا کہ ہماری روایتی سیاست میں ایسے لوگوں کے حوالے کر دی جاتی ہے جو عوامی مینڈیٹ کے اصل حق دار نہیں ہوتے جیسا کہ 2018 کے انتخابات میں کیا گیا۔ دوسرا پہلو ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر کی جمہوریت ہے جہاں کارکنوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس سے جمہوریت کے ثمرات مشروط ہوتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوتی تو اس کے نتائج ہماری موجودہ سیاسی صورت حال میں نظر آتے ہیں۔

ہماری جمہوری ابتری ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں خود سیاست دان ہیں جن کے اپنے اندر اہلیت نہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ جب آئین پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے تو پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنی صفوں میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔ اداروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اندر گھسے ہوئے جمہوری غداروں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں ہمارا اصل مدعا اس کا پرچار نہیں بلکہ اس کا حل تلاش کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی حالات کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

اس کے لئے سب سے پہلے جمہوریت کو صحیح معنوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ ابراہام لنکن نے جمہوریت کی تعریف یوں کی تھی؛

 'Government of the people, by the people, for the people' یعنی عوام کی حکمرانی، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے۔

اس کا سادہ لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ جمہوریت میں عوام سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ طاقت اتنی کمزور کیوں پڑ چکی ہے؟ اور یہ سب کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟

جمہوریت عوام کو حکمرانی کا حق تو دیتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ عوام حکمرانی کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں، جانتے ہوں کہ اپنی طاقت کو کیسے محفوظ ہاتھوں کے سپرد کرنا ہے۔ جیسے ہر کام کے لیے ہنر کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی جمہوریت سے مستفید ہونے کے لئے بھی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس طاقت کی اصل بنیاد سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاق اور باہمی قومی ربط ہوتے ہیں جو قوموں کو نا صرف بروقت بلکہ صحیح فیصلے کروانے میں ممد و معاون بنتے ہیں اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے گر بھی سکھاتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں بلکہ عوامی امنگوں اور ضروریات کے مطابق حکومت سازی کا ایک پورا عمل ہے۔ حکومت ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کا مقصد عوام کو وسائل سے مہیا سہولیات میں برابری، امن، روزگار اور انصاف مہیا کرنا ہے اور اس کے لئے حکمران جمہور کو جوابدہ ہیں۔ ان کے اندر ایسی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جس سے وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو آسان اور یقینی بنا سکیں۔ اب ان صلاحیتوں کے حامل نمائندوں کا انتخاب عوام نے کرنا ہے۔ عوام نے یہ طے کرنا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں کیونکہ سیاسی قیادت کا کردار عوام نے واضح کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہوں تو ان کی جوابدہی کے عمل کو بھی یقینی بنانے کے لئے عوام کے اندر شعور اور اس کو ممکن بنانے کی واقفیت ہونی چاہیے۔

یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب عوام کو ریاست، اس کی املاک اور اس کے اداروں کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ہو جو ان کو حکومت اور ملک و قوم کی فلاح و ترقی کے کام میں دلچسپی پیدا کر کے اس میں عملی طور پر شمولیت اور اس کی نگرانی کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہ واقفیت کا علم آئین کو سمجھنے سے آتا ہے۔

تب وہ نا صرف قابل قیادت کو سامنے لانے کے اہل ہوتے ہیں بلکہ ان کا ہر طرح سے محاسبہ کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے بھی پرعزم ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی شعور آئینی و قانونی حقوق اور بحیثیت ایک شہری اپنی ذمہ داریوں کو جاننے سے آتا ہے۔ جو عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ترقیاتی پراجیکٹس کی نگرانی سے لے کر قومی سطح کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے اختیارات کے استعمال تک کی نگرانی کرنی ہے۔ جیسا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ہر طرح کی سرکاری معلومات تک رسائی کا اختیار رکھتا ہے۔ اگر ان کے علاقے میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں تو وہ متعلقہ محکمے سے یہ معلومات حاصل کر سکتا ہے کہ کتنی لاگت کا یہ منصوبہ ہے اور اس کا کیا معیار ہونا چاہیے اور پھر ان معلومات کی مطابقت سے وہ ٹھیکیدار کو کام کرنے کا پابند بنا سکتا ہے۔ اسی کی ایک حالیہ مثال توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی معلومات بھی ہیں جن پر ایک صحافی نے آواز اٹھائی اور آج وزراء اور وزیر اعظموں کی جوابدہی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

یہی وہ ترقی کے ماڈلز ہیں جن سے عوام کو اپنی طاقت اور اس کے استعمال کا علم ہوتا ہے تو پھر جمہوریت اپنے ثمرات سے مستفید کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

اسی طرح اعلیٰ اخلاقیات ان کو یہ سکھاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نمائندوں میں چناؤ کے لئے قومی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دینی ہے اور ایسی خوبیوں کے حامل ممبران کا چناؤ کرنا ہے جن کی بنیاد ان کا کردار، کارکردگی اور ملک و قوم کی فلاح کا جذبہ ہو۔ جیسے اب انتخابات 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں تو عوام کو اپنی رائے دیتے ہوئے اپنے سیاسی شعور اور اخلاقیات سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے سے با صلاحیت قیادت کے چناؤ میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہیں جو عوام کا منشور ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کے منشور سے دھوکہ نہیں کھائیں گے بلکہ اس کو ان کی ماضی کی کارکردگی سے جوڑ کر پرکھیں گے کہ وہ عملی طور پر کس قدر ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں۔

اگر عوام کے اندر ریاست کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ہوتا تو آج ملک مقروض نہ ہوتا اور آزاد تجارتی اور خارجی امور کی پالیسیاں ہوتیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں کوئی بھی اس قدر مقروض نہیں جو ہمارا حال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کو اب یہ مؤقف اپنا لینا چاہیے کہ جو مہنگائی ہوئی ہے اور عوام کے گھروں کے چولہے بند ہوئے پڑے ہیں، بجلی کی قیمتوں کو کہیں سکوت نہیں آ رہا، خور و نوش کی قیمتیں ہر لمحے بڑھ رہی ہیں، ہر کوئی دوسرے پر الزام لگا رہا ہے اور اپنے آپ کو بے گناہ کہہ رہا ہے حتیٰ کہ جو اتحادی رہے ہیں وہ بھی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، اس کی تحقیقات ہونی چاہیں اور جو بھی حکومت اس کی ذمہ دار ہے اس میں شامل ممبران کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور جو ذمہ دار ہیں ان کی جائیدادیں بیچ کر قرضے اتارے جائیں تا کہ مستقبل میں سیاست کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر قدم رکھیں۔ یہ تماشہ بند ہونا چاہیے کہ جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر بھاگا چلا آتا ہے اور سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ ان کا شوق سیاست اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک جوابدہی کا سلسلہ شروع نہیں ہو گا۔

جب جوابدہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کو نمائندگی کرنے کے لئے ڈھونڈنے سے بھی کوئی نہیں ملے گا۔ یہ زبردستی عوامی نمائندگی کا رجحان ختم ہو جائے گا اور عوام کو اچھے کردار والے لوگ مجبور کر کے ان عہدوں پر بٹھانے پڑیں گے۔ جب کسی کو معلوم ہو کہ عوام کی خدمت کرنی ہے اور ساتھ ساتھ جوابدہی بھی ہو گی تو صرف خوف خدا رکھنے والے اچھے کردار کے حامل خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہی اس ذمہ داری کی حامی بھریں گے۔ ایسے ہی انقلاب آتے ہیں اور قوموں کی حالت بدلتی ہے اور عوام کا اختیار حکمرانی ان کے ہاتھ میں آتا ہے۔