عمران خان کی نااہلی ہمیشہ کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک ٹرم کے لیے تھی، اگر وہ دوبارہ پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل ہو سکتے ہیں تو پھر وہ پارٹی کے چئیرمین بھی ہو سکتے ہیں، ان کو ایک دفعہ پارٹی کی چئیرمین شپ چھوڑ کر دوبارہ پارٹی میں سے الیکشن لڑکرچئیرمین بن سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان اگر پنجاب اسمبلی سے استعفے دیتے ہیں تو اس کا فائدہ پی ڈی ایم کوہو گا، اس صورت میں موجودہ حکومت کو 10 ماہ کی مزید حکومت مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ استعفوں والی حکمت عملی اتنی مؤثر نہیں ہوگی، اگرعمران خان اسمبلی توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر حکومت کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان بھی استعفوں کی مخالفت کریں گے۔ استعفوں کا فیصلہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاسی خود کشی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ ممکن نہیں ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ عمران خان کی حمایت کرے گی۔ یہ کہنا ہے سینئیر صحافی مزمل سہروردی کا۔
نیا دورٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باجوہ صاحب نے 2018 میں طے کیا تھا کہ پنجاب کی حکومت پی ٹی آئی کو دینی ہے۔ اب عدالتوں کے عمران خان کے بارے میں رویے میں بھی تبدیلی آئی ہے، عمران خان کو پہلے جیسا ریلیف نہیں ملے گا۔ اگر ضمنی انتخاب ہوتے ہیں تو عمران خان کی مقبولیت اور ان کا بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آج شہباز شریف نے کافی محتاط بات کی ہے، وہ چاہتے تو پوائنٹ سکورنگ کر سکتے تھے، وہ باجوہ صاحب کی حمایت میں زیادہ نہیں بولے، (ن) لیگ باجوہ صاحب کے بارے میں خاموش ہے، وہ باجوہ صاحب کے دفاع میں کھل کر سامنے نہیں آئی۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ شہباز شریف کی آج کی گفتگو محتاط تھی، جب کہ خود باجوہ صاحب نے جاوید چوہدری سے کہلاوایا ہے کہ انہوں نے فیض حمید کے زریعے سے عمران خان کو این آراو دلوایا تھا، ابھی تک نواز شریف کا کارڈ موجود ہے، دیکھنا ہو گا وہ پاکستان آ کر اس معاملے پرکیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی مدت میں 120 دن رہتے ہیں، اگراب کوئی رکن استعفی دیتا ہے تو پھر ان سیٹوں پر الیکشن نہیں ہو سکتے۔
ماہر قانون اویس بابر نے کہا کہ سب سے ضروری پارلیمنٹ ہے جو قانون بناتی ہے، پھر سپریم کورٹ آتی ہے، وہ تب رولنگ دیتی ہے جب پارلیمنٹ خاموش ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے درست اور قانونی فیصلہ لیا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ اپنے پرانے فیصلے پہ ریتی ہے یا یو ٹرن لیتی ہے۔ قانون کے مباطق عمران خان جب تک نااہل ہیں وہ پارٹی کے چئیرمین نہیں رہ سکتے۔ عمران خان نے اپنی نااہلی کے فیصلے کو چیلینج کیا ہوا ہے،ان کا مؤقف ہے کہ الیکش کمیشن ان کو نااہل کرنے کے اختیار نہیں رکھتا، جبکہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 63 کے مطابق نااہل کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صرف وقت گزاری کررہے ہیں، اور وہ اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس ابھی کچھ اور کرنے کو نہیں ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ کے پی کے میں لوگ مایوس ہیں، کے پی کے میں 20 سال سے دہشت گردی ہو رہی ہے، احسان اللہ احسان جیسے لوگ برملا کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کی ہے، اس لیے عوام میں ریاست کے بارے میں غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی اورطالبان سے نمٹنے کے لیے ایک 'کاؤنٹر فورس' کی ضرورت ہے، جو پی ٹی ایم بن سکتی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ کھڑی ہو جائے تو بہادرپشتون طالبان سے نمٹ سکتے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں شہبازشریف نے کہا تھا کہ طالبان پینجاب میں کاروائی نہ کریں، سیاسی جماعتیں طالبان کے بارے میں مصلحت پسندانہ رویہ رکھتی ہیں، اے این پی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے طالبان کے خلاف واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔ اگر کے پی کے میں امن نہ ہوا توپھر پورا پاکستان بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم اور محسن داوڑ جیسے لوگ ریاست کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ پاکستان کے آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں۔
میزبان رضا رومی نے کہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ 1980 کے دور کی افغان پالیسی کو ترک کرکے ازسرنو افغان پالیسی مرتب کریں تا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے اور امن کی صورتحال برقرار رہے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔