پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انھیں باعزت بری کر دیا گیا۔
احتساب عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ محمد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ دیا گیا اور ساتھ ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف کو عدالت سے ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
تقریباً نو ماہ تک جاری رہے اس مقدمے کا فیصلہ گزشتہ سال چھ جولائی کو آیا جب نواز شریف اپنی بیمار اہلیہ کے ساتھ مریم نواز کے ہمراہ لندن میں مقیم تھے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف پر یہ الزام ثابت نہ ہو سکا کہ انھوں نے دوران حکومت اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی رقم بنائی لیکن نیب قوانین کے تحت انھیں معلوم ذرائع سے زیادہ آمدن رکھنے کے جرم میں دس سال جیل ہوئی جبکہ ایک سال جیل نیب حکام سے تعاون نہ کرنے پر ہوئی۔ اس کے علاوہ ان پر اسی لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
183 سماعتیں، نوازشریف کی 130 پیشیاں
احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔
احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
یاد رہے کہ مریم نواز نے ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران العزيزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سُنانے والے جج سے متعلق مبینہ آڈیو ویڈیو ٹیپ صحافیوں کو دکھائی تھی۔
مریم نواز نے الزام لگایا کہ جج نے مسلم لیگ کے رکن ناصر نامی شخص کو گھر بلاکر ساری تفصیلات بتائیں اور انہیں بتایا کہ فیصلہ انہوں نے نہیں کیا، ان سے کروایا گیا۔