مجھے ڈر لگ رہا ہے

مجھے ڈر لگ رہا ہے

25 اپریل


1 بجے دوپہر


وہ کمرے سے بھاگتی ہوئی صحن کی طرف آ رہی تھی. دوپہر کا وقت تھا. گھر میں کوئی نہیں ہوگا، وہ جانتی تھی! سوائے نانی ماں کے. وہ جلدی سے ان کے پاس پہنچنا چاہتی تھی جو برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی تھیں. کمرے سے برآمدے تک فاصلہ اتنا لمبا نہیں تھا جتنا آج اس کو محسوس ہو رہا تھا۔


بھاگتے ہوئے وہ نانی ماں کے پاس پہنچی جو چاول چننے میں مصروف تھیں۔ وہ ان کے پاس پہنچی تو جیسے اس کی جان میں جان آئی.. نانی ماں نے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا.. "ماہم تجھے کیا ہوا رے، اتنا کیوں ہانپ رہی ہے.. کہاں سے بھاگتی آ رہی ہے.. اور بھائی کہاں ہے؟ اس نے دوا دیدی تمہیں؟" ماہم نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔ اس کو عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا، لیکن اس کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ ڈر کیوں رہی ہے، بس اتنا پتا تھا کچھ تھا جو غلط تھا، برا تھا!


یکم مئی


7:45  صبح سویرے


آج وہ بہت خوش تھی، آج اسکول کا پہلا دن تھا، اب وہ تیسری جماعت میں آگئی تھی، اس کو صبح پیدل اسکول جانا بہت اچھا لگتا تھا، وہ اسکول پہنچنے والی تھی کہ اس کو شاہ میر بھائی دکھے جو اپنی گاڑی میں اپنے اسکول کی طرف جارے تھے.. وہ میٹرک میں تھے اس لئے ان کا اسکول الگ تھا.. انہوں نے مسکراتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلایا، لیکن ماہم کو اچھا نہیں لگا یہ۔ اس کو ڈر محسوس ہوا پھر سے، ماہم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ شاہ میر بھائی کو دیکھتے یا ان کا نام سنتے پریشان کیوں ہو رہی ہے.. وہ کیوں اپنے فیورٹ کزن سے ڈر رہی ہے؟ "ماہم جلدی چلو اسمبلی شروع ہوجائے گی" اس کی دوست نے اس کو راستے میں کھڑا دیکھ کر ہاتھ پکڑ کر کہا.. اور ماہم اسکول کی طرف بھاگنے لگی اپنی دوست کے ساتھ۔


4 جون


5:00PM


گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں تھیں، وہ سب نانی ماں کے گھر آئے ہوئے تھے، سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ چھپن چھپائی کھیلی جائے گی، سارے بچے چھپیں گے اور شاہ میر بھائی سب کو ڈھونڈیں گے۔


وہ اسٹور روم میں جا کر ڈبوں کے پیچھے چھپ گئی.. اس نے اسٹور روم کا دروازہ کھلتے ہوئے دیکھا، شاہ میر بھائی اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند ہوگیا، ماہم کو محسوس ہوا جیسے وہ سانس نہیں لے پا رہی۔ اس کا سارا جسم پسینہ سے بھیگ چکا تھا اور اس کو یاد آنے لگا سب... کہ وہ شاہ میر بھائی سے کیوں ڈرنے لگی ہے!


25 اپریل


12:30PM


"نانی ماں مجھے ابھی بھی پیٹ میں درد ہورہا ہے" نانی ماں جھنجھلا سی گئیں تھیں ماہم کی بار بار درد کی شکایت پر.. "بولا بھی تھا تمہاری ماں کو کہ چھٹی کرلو یا بچی کو ساتھ لے جاؤ تنگ کریگی مجھے لیکن نہیں ان کو بھی میں نے سنبھالا اب ان کے بچوں کو بھی پالوں.." اسی وقت شاہ میر بھائی گھر میں داخل ہوئے۔ نانی ماں نے فوراً ان کو پکارا " ارے شاہ میر بیٹا تم کب آئے.. اب آگئے ہو تو اک کام کرو اندر ماہم کی دوا پڑی ہوگی اس کو جا کر پلا دو بار بار درد کی شکایت کر رہی ہے۔ " شاہ میر بھائی نے مسکرا کر ماہم کو دیکھا" ہاں کیوں نہیں" اور اس کا ہاتھ پکڑا، ماہم بھائی کے ساتھ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں نانی کے کمرے میں گئے۔ بلب نہیں جل رہا تھا اس لئے کمرے میں ہلکا سا اندھیرا تھا۔


شاہ میر بھائی نے ماہم کو چارپائی پر بٹھا کر پوچھا" کہاں درد ہورہا ہے ہماری ماہم کو" ماہم نے فوراً پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتایا، شاہ میر بھائی نے ماہم کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولا "ابھی صحیح کر دیتے ہیں درد" اور وہ اپنا چہرہ ماہم کے چہرے کے قریب لائے، بہت قریب.. ماہم کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا یہ.. اس کو پیٹ میں مروڑ سی محسوس ہوئی اس کو شاہ میر بھائی کا اس کو چھونا اچھا نہیں لگا، اس کو شاہ میر بھائی کا اس کا گال چومنا اچھا نہیں لگا.. اور اس نے بھائی سے خود کو دور ہٹایا اور چیخنے لگی تھی کہ شاہ میر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا " شش.. کچھ بھی نہیں ہوا، ہے نا؟" اس کو شاہ میر بھائی کی آنکھوں سے شدید خوف آیا اور وہ دوڑتی ہوئی باہر نکل آئی۔


یکم جون


5:20PM


ماہم کو سمجھ آگیا کہ اس کو شاہ میر بھائی سے ڈر کیوں لگتا ہے.. اس کو سمجھ آگیا کہ جو خواب اس کو روز ڈراتا ہے وہ صرف برا خواب نہیں، سچ ہے... وہ فوراً ڈبوں کے پیچھے سے نکلی اور چلاتے ہوئے باہر کی طرف دوڑ نے لگی.. "آپ برے ہیں شاہ میر..... بھائی!"


انتباہ : اس کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں