اسلام فضول رسموں کو چھوڑ کر شادیاں آسان بنانے کی تعلیم دیتا ہے

یہ حقیقت ہے کہ تقدسِ نسواں کا محافظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہو جائیں تو معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہو جائے جو عورتوں کے بے مہار ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مگر اکثر مردوں کی غیرت بھی ایسے موقعوں پر کہیں غائب ہو جاتی ہے۔

اسلام فضول رسموں کو چھوڑ کر شادیاں آسان بنانے کی تعلیم دیتا ہے

ہماری شادیاں جو کبھی ایمان کا مکمل حصہ ہوا کرتی تھیں، آج ایک رسم بن کر رہ گئی ہیں۔ موجودہ دور کی شادیوں میں جو کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، وہ ناصرف اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ ہماری ثقافتی اقدار کو بھی مجروح کرتا ہے۔ دلہن کا نیم برہنہ جسم، نامحرم مردوں کا عورتوں کی ویڈیوز بنانا اور باپ اور بھائی کی غیرت کا ختم ہو جانا؛ یہ سب معاملات نہایت افسوس ناک ہیں۔

فوٹوگرافر اور مووی میکر شادیوں میں ایسے بن ٹھن کر آتے ہیں جیسے یہ تقریب انہی کی ہو۔ دلہا میاں خود انہیں گائیڈ لائن دے رہا ہوتا ہے کہ سب خواتین کی تصویر ٹھیک سے بنانا اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ جو جتنا غریب ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ پیسہ ان فضول رسموں پر خرچ کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ پیسہ قرض لے کر یا دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، جس سے مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔

لوگ اکثر کہتے ہیں کہ برادری میں ایسا کرنا رواج ہے ورنہ ناک کٹ جائے گی۔ یہ لوگ کبھی آپ کی مشکلات میں شریک نہیں ہوں گے۔ وہ جن کے لئے آپ یہ سب کرتے ہیں، آپ کے بیٹے یا بیٹی کی طلاق پر کوئی افسوس نہیں کریں گے۔ بلکہ الٹا یہ کہنے سے بھی نہیں چوکیں گے کہ اتنی فضول خرچیاں کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔

اسلام نے شادی کو آسان بنایا ہے مگر ہم نے اسے مشکل بنا دیا۔ گھروں اور پلاٹوں پر ٹینٹ لگا کر عورتوں کے ناچ دیکھنا، فحش محفلوں میں شامل ہونا، یہ سب ناپسندیدہ اور گناہ کے کام ہیں۔ ایسی تقریبات میں شرکت کرنے والے بزرگ بھی اس فحش ماحول میں شامل ہو کر اپنی عزت اور وقار کو مجروح کرتے ہیں۔

ڈھولک کی آواز سے لوگوں کی نیند خراب ہوتی ہے اور بڑے سپیکر پر ساری رات گانے بجانا، جس سے بیمار اور ضعیف لوگ متاثر ہوتے ہیں، ان سے دعا کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ایسی شادیوں میں برکت کیسے آ سکتی ہے جہاں دوسروں کو اذیت پہنچائی جا رہی ہو؟

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

شادی کو آسان بنائیں، فضول رسم و رواج کو چھوڑیں۔ یہ فضول خرچیاں اور غیر اسلامی رسومات غریب نوجوانوں کی شادیوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔ مرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے تاکہ معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہو سکے جو عورتوں کے بے مہار ہونے اور ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ تقدسِ نسواں کا محافظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہو جائیں تو معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہو جائے جو عورتوں کے بے مہار ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مگر اکثر مرد جو غیرت کا پیکر بنے ہوتے ہیں، ان کی غیرت بھی ایسے موقعوں پر کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ اکثر یہی بات رٹی ہوتی ہے، 'کون سا شادی روز روز ہونی ہے؟'

بہت سے لوگوں کو میری بات سے اختلاف ہو گا، لیکن جو سچ تھا اور جو آج کل ہو رہا ہے، اس کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان فضول رسم و رواج سے بچنے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ہمیں قرآن و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو واپس پاکیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں، جو اہلِ بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کا خاصا تھا۔ گھر کے اندر مرد نگران ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کی صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔

بزرگوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ ان فضول رسم و رواج کو اپنی زندگی ہی میں ختم کر جائیں، نہیں تو قبروں میں یہ عذاب کا باعث بنیں گے۔ ہماری شادیاں تبھی کامیاب اور بابرکت ہوں گی جب ہم اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی تقریبات کا اہتمام کریں گے۔ اللہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔