Get Alerts

آپ کا بیٹا محفوظ ہاتھوں میں ہے مگر اگلے روز اُن کے لاش کی تصویر دکھائی گئی: کیا پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو نمٹایا جا رہا ہے؟

آپ کا بیٹا محفوظ ہاتھوں میں ہے مگر اگلے روز اُن کے لاش کی تصویر دکھائی گئی: کیا پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو نمٹایا جا رہا ہے؟
یہ جنوری 2021 کا دوسرا ہفتہ تھا اور ہمیں راولپنڈی ڈیفنس تھانے کے ایک افسر نے تھانے پہنچنے کے احکامات تب دئیے جب لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ نے میرے چار سال سے گمشدہ بیٹے اسامہ کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ کے فیصلے کے بعد خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار نے آکر ہمیں بتایا کہ آپ کیس کو آگے مت لیکر جائیں ، آپ  کا بچہ محفوظ ہاتھوں میں ہے مگر اس کے دو روز بعد ہمیں پولیس نے تھانے بلالیا۔ تھانے پہنچنے کے بعد ہمیں 3 نوجوانوں کی تصویریں دکھائی گئیں کہ یہ لاشیں ہمیں ڈ ینگہ گاؤں کے نزدیک اپر جہلم نہر سے ایک سال پہلے ملی تھیں جو کہ شاید ایکسیڈنٹ کی وجہ سے نہر میں جا گری تھیں۔ دیکھئے، پہچانیے شاید ان میں سے ایک تصویر اسامہ مرزا کی ہو؟ ان تصویروں کی دیکھنے کے بعد اُسامہ مرزاکے والدین کے پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی. انہوں نے  پولیس والوں سے کہا کہ ہمارے بیٹے کو تو خفیہ اداروں نے اُٹھایا ہے اور وہ یہ بات تسلیم بھی کرچکے ہیں۔  ان کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوسکتا ہے وہ تو محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ مگر ڈی این اے کا ٹیسٹ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ تصویر میں نظر آنے والے تین نوجوانوں میں ایک تیس سالہ اُسامہ مرزا بھی تھا جس کی پہچان ڈی این اےسے کی گئی۔

اسامہ مرزا  کون تھے ؟

اُسامہ مرزا راولپنڈی کے ڈیفنس کے علاقے میں اپنے والدین سمیت رہائش پذیر تھے اور وہ موٹر سائیکلوں کے ایک شوروم سمیت الیکٹرانکس کا کام کرتے تھے۔ اُسامہ نے نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد سے الیکٹریکل  انجینئرنگ میں گولڈ مڈل حاصل کیا تھا اور سال 2016 میں دکان سے واپسی پر ان کو اپنے ملازم سمیت ریاستی اداروں نے اُٹھایا اور نامعلوم مقام  پر لیکر گئے ۔ اگلے روز ان کے ملازم کو چھوڑ دیا گیا۔ ملازم کے مطابق جب اُسامہ کو لیکر جارہے تھے تو وہاں پولیس کی گاڑیوں سمیت دیگر سرکاری گاڑیاں بھی موجود تھیں۔

جبری گمشدگیوں کی سراغ رسانی کا کمیشن: نیا دور میڈیا نے اعداد و شمار میں کیا پایا

نیا دور میڈیا  نے جبری گمشدگیوں کے سراغ رسانی کے لئے بنائے گئے کمیشن  کے اپریل 2020 سے اپریل 2021 تک  کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اپریل 2020 سے اپریل 2021 تک جبری گمشدگیوں کے 1245 مزید کیسز کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جن میں مارچ 2021 کے مہینے میں سب سے زیادہ  714 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 کے اپریل کے مہینے میں جبری گمشدگیوں کے 33 کیسز ، مئی میں 13، جون میں 12 ، جولائی میں 43، اگست میں 23 ستمبر میں   34 اکتوبر میں 45 ، نومبر میں 23 جبکہ دسمبر میں 67 افراد کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔

کمیشن کے سال 2021 کے اعداد و  شمار کے مطابق جنوری میں جبری گمشدگیوں کے 23، فروری میں 144 ،مارچ میں 714 جبکہ اپریل کے مہینے  میں 71 کیسز کمیشن کو موصول ہوئے۔ کمیشن نے واضح کیا ہے کہ سال 2020  کے پورے سال میں جبری گمشدگیوں کے کل 414  جبری گمشدگیوں کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ 2021 کے شروع کے چار مہینوں کے اعداد و شمار 952 ہیں۔

کمیشن کے مطابق گزشتہ نو سالوں میں جبری گمشدگیوں کے کل  7802 کیسز موصول ہوچکے ہیں جن میں  سے میں سے 5200 کیسز پر کام ہوچکا ہے جبکہ 2337 کیسز کا سراغ تاحال نہیں لگایا جاسکا۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن   کو سال 2016 میں جبری گمشدگیوں کے کل 728 کیسز ، سال 2017 میں 868 کیسز ، سال 2018 میں 1098 کیسز ، سال 2019 میں 800 کیسز جبکہ سال 2020 میں  ملنے والے جبری گمشدگیوں کے 415 کیسز شامل ہیں۔

کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں کل 877 افراد فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں قید ہیں جن میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے باسیوں کی ہے۔ کمیشن کے مطابق گزشتہ 9 سالوں میں ملک میں 224 افراد کے نعشیں ملی ہیں جبکہ  کمیشن کے پاس کیسز درج کرنے کے بعد کل 2861 افراد اپنے گھروں کو صحیح سلامت واپس لوٹے۔ کمیشن کے اعداد و شمار اور کمیشن کے جانبداری پر گزشتہ روز انسانی حقوق کے کمیشن نے اپنے سالانہ رپورٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کی تعداد کمیشن کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہے۔ ایچ ار سی پی نے اپنے رپورٹ میں کہا تھا کہ ایچ ار سی پی اور انٹرنیشنل کمیشن پر جیورسٹ کے تحفظات کے باوجود بھی اس کمیشن کو توسیغ دی گئی جو کے اپنا کام نہیں کرپارہی ہے اور نہ ذمہ داروں کو سزائیں دینے میں کامیاب ہوئی۔

حکمران جماعت نے موجودہ کمیشن کو تین سال کی توسیع دیتے ہوئے موجودہ چئیرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو کام جاری رکھنے کے احکامات جاری کئے تھے۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کہتی ہیں پاکستان تحریک انصاف ملک میں جبری گمشدگیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریگی اور جبری گمشدگیوں کو جرم بنانے کے لئے یہ قانون کابینہ سے منظوری لینے کے بعد اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا ۔ شیریں مزاری کہتی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں انسانی حقوق کی بہتری کا وعدہ کیا تھا اور آج اسی وعدے کی تکمیل میں صحافیوں کے تحفظ اور جبری گمشدگیوں کو جرم بنانے کا قانون اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا اپوزیشن جماعتیں تنقید کرتی رہیں مگر یہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ہی ہے جو اس قانون کوسامنے لارہی ہے جن کی توفیق دیگر سیاسی جماعتوں کو نہیں ہوئی۔ کمیشن پر جواب دیتے ہوئے انسانی حقوق کی وزیر نے کہا کہ کمیشن  ہماری حکومت میں قائم نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ سال 2011 میں قائم ہوا تھا اس لئے اس کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی اورجبری طور پر گمشدہ لوگوں کے لواحقین فوج اور خفیہ اداروں پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کا الزامات لگاتے ہیں مگر فوج اور اس کے ادارے اس کی تردید کرتے ہیں۔ مگر گزشتہ کچھ مہینوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے روئیے میں بھی تبدیلی آئی ہے اور فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک میڈیا بریفنگ میں یہ نکتہ اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں گمشدہ افراد کا مسئلہ جلد ختم ہوجائے گا۔

اس سال جنوری میں بلوچستان سے جبری طور گمشدہ افراد کے لواحقین نے ڈی چوک پر ایک دھرنا دیا تھا۔  جس میں مظاہرین نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیر اعظم دھرنے کے لواحقین سے مل کر ان سے معاملات طےکرلیں اور بعد میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم مارچ کے مہینے میں جبری طور پر گمشدہ مظاہرین کے لواحقین سے کوئٹہ میں ملاقات کریں گے مگر تاحال یہ ملاقات نہیں ہوسکی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچستان میں کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا اور باقی کو رہا کیا جارہا ہے مگر یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسلام آباد دھرنے میں احتجاج کرنے والی حسیبہ قمبرانی نے بھی کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کزن کو کئی سال بعد رہا کیا گیا مگر ان کے بھائی تاحال لاپتہ ہیں۔

کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن نے ہزاروں ایسے کیسز کو خارج کیا ہے جس میں  لوگ گھر والوں سے جھگڑا کرنے کے بعد گھر چھوڑ کر گئے تھے اور ان کے کیسز کو بھی جبری گمشدگیوں کے طور پر دائر کیا گیا تھا۔

کیا حکومت جبری گمشدگیوں کو قابل جرم عمل بنانے میں کامیاب ہوجائیگی ؟ 

اس سوال پر بہت سارے انسانی حقوق کے کارکنان مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو لوگ ملک میں جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں  وہ بہت طاقتور ہیں اور حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔ ان کو لگام دینا ناممکن ہے۔ اس لئے اس قانون کی کوئی خاص افادیت نہیں ہوگی۔ نیا دور میڈیا کو کمیشن کے ایک رکن نے بتایا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو جرم بنایا جائے گا یا اس میں ملوث لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا یہ ناممکن ہے کیونکہ کمیشن جس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا وہ مقصد بھی پورا نہیں ہوا کہ اس کمیشن کا کام صرف سراغ لگانا نہیں بلکہ اس میں ملوث لوگوں کو مجرم بھی تصور کرنا ہے جو بدقسمتی سے نہیں ہوئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک انکوائری میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا  کہ کچھ اداروں کے طاقتور افسران ملک میں جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں مگر ابھی تک وہ آزاد گھوم پھرر رہے ہیں۔  کیا اس قانون سے ان کو بھی مجرموں  کے کٹہرے میں  لایا جائے گا؟

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔