عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے کہا ہے کہ پاکستان کیلیے 1.2 ارب ڈالر بیل آؤٹ پروگرام کا 9واں جائزہ اس وقت مکمل ہو گا جب ضروری فنانسنگ ہو جائے گی تب معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کے فقدان کو اجاگر کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق آئی ایم ایف نے 9ویں جائزے کو مکمل کرنے کیلیے ضروری تمام پیشگی اقدامات کو پورا کرنے کے حکومتی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ سمیت آئی ایم ایف کی ان پالیسیوں کے بارے میں جو وہ نافذ کرنا چاہتا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام اس کو ایسا مطالبہ قرار دیتے ہیں جو گول پوسٹ تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ضروری فنانسنگ اور 9ویں جائزے کی تکیمیل کیلیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ حتمی معاہدے انجام پا سکے۔
ناتھن پورٹر نے کہا کہ آئی ایم ایف آنے والے عرصے میں پالیسیوں کے نفاذ بشمول مالی سال 2024 کے بجٹ کی تیاری کے لیے تکنیکی کام میں تعاون کرے گا جو کہ جون کے آخری ہفتے سے قبل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کا امکان ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے اسٹاف لیول معاہدے کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں لہذا حتمی معاہدہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کیلیے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کر لی ہے۔ توقع تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے پر جلد دستخط کیے جائیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے 9 ویں جائزے کی منظوری دی جائے گی۔ تاہم آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے مذکورہ بیان نے اس بات کی نفی کر دی جس کا پاکستانی حکام 9 فروری سے دعویٰ کر رہے ہیں۔ جب دو طرفہ بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی تھی۔
ناتھن پورٹر نے ضروری فنانسنگ کی مقدار کی وضاحت نہیں کی جو پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر قرض کے حصول اور 9 ویں جائزے کی تکمیل کیلئے ظاہر کرنا ہے جو پہلے ہی سات ماہ کی تاخیر کا شکار ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ پاکستان کو رواں سال جون تک مالیاتی خسارا کو پورا کرنے کے لیے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جس میں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن دونوں ممالک سے ابھی تک مالی معاونت نہیں پہنچی۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے مجموعی سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 ارب ڈالر پر برقرار ہیں۔پاکستان کو آئندہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
جولائی تا دسمبر کی مدت کیلیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بشمول سود 11 ارب ڈالر ہے، اگر چین اور سعودی عرب اپنے مختصر مدت کے قرض رول اوور کر دیتے ہیں۔ تب بھی پاکستان کو اگلے مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران بین الاقوامی قرض دہندگان کو ادائیگی کے لیے 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ ان میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، سعودی فنڈ برائے ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور چینی کمرشل بینکوں کو ادائیگیاں شامل ہیں۔
پاکستان نے معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے متعدد مطالبات کو مکمل کیا گیاہ جس میں سبسڈیز کو تبدیل کرنا، توانائی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کرنا، پالیسی کی شرح میں اضافہ کرنا، مارکیٹ پر مبنی کرنسی کی شرح تبادلہ پر چلنا، بیرونی مالی اعانت کو بڑھانا اور نئے ٹیکسوں کی مد میں 170 ارب روپے بڑھانا شامل ہیں۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کی جانب سے نیا مطالبہ کیا گیا ہے جس سے وزارت خزانہ ناراض دکھائی دے رہی ہے۔
وزارت خزانہ کے سینئر حکام کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کو نویں جائزے کی منظوری کو بجٹ سے نہیں جوڑنا چاہیے۔بجٹ کا معاملہ 11ویں جائزہ کیلیے بحث کے وقت اٹھایا جانا چاہیے۔ کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تشویشناک ہے۔
واضح رہے کہ جون میں نویں جائزے کے اختتام کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف فروری سے زیر جائزہ مالیاتی پالیسی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں تاکہ تاخیر کا شکار پروگرام کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نومبر 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا معاہدہ طے پایا تھا۔