طاہر خان نے کہا ہے کہ میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ طالبان افغانستان کی سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کو وہاں سے نکالیں گے، یہ بالکل ناممکن ہے کیونکہ افغان طالبان سالہا سال تک پاکستانی طالبان کے مہمان رہے ہیں، اب وہ اب ان کے مہمان ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں جتنے بھی شدت پسند گروپس ہیں جن میں داعش ودیگر شامل ہیں، طالبان انھیں وہ خارجی مجاہدین کے نام سے پکارتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے ہو رہے ہیں، کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے خود اس کا اقرار کیا تھا۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے بھی اس کا انکار نہیں کیا گیا تھا، البتہ جنگ بندی کی کوئی بات ہی نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر کے نام سے جو گروپ ہے اس نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ یہ گروپ ٹی ٹی پی کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا جبکہ جنوبی وزیرستان کے ملا نذیر گروپ کا بھی یہی معاملہ تھا۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آج ہی شمالی وزیرستان میں حملہ کیا تھا۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ کچھ روز قبل سیکیورٹی فورسز نے ہمارے چار لوگوں کو مار دیا تھا، یہ ان کا بدلہ لیا گیا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے کبھی بھی بامعنی مذاکرات سے انکار نہیں کیا تاہم ''آن دی گرائونڈ'' کچھ بھی نہیں ہو رہا جبکہ سیکیورٹی فورسز کے ذرائع بھی یہی بتا رہے ہیں کہ ابھی تک ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کیلئے جو شخصیت تعاون کر رہی ہے اس میں طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی کا نام سامنے آ رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے ایک مذہبی رہنما چند دن پہلے افغانستان گئے تھے، وہاں ان کی سراج الدین حقانی کیساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کی جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اسی دورے کے بعد آئی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پر پاکستان کی جانب سے تشویش کا اظہار ضرور کیا جاتا ہے تاہم سخت الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔ ہمارے بیانات ماضی کی طرح سخت نہیں ہیں، اس میں ''توقع'' کا لفظ ضرور استعمال کیا جاتا ہے کہ جیسے کہ ''عبوری حکومت افغانستان سے توقع کی جاتی ہے کہ ایسے حملے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گی''۔ تاہم میرا نہیں خیال کہ حکومت پاکستان طالبان سے سخت موقف اپنائے گی۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، ان کے تقریباً تمام لوگوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا ہے۔ ماضی کی نسبت ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں زیادہ محفوظ ہونگے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جیلوں سے نکالے گئے ٹی ٹی پی کے افراد کو افغانستان کے علاقے کنٹر لے جایا گیا ہے کیونکہ وہاں نسبتاً زیادہ سیکیورٹی ہے۔ لیکن دوسری جانب طالبان پر ضرور دبائو ہے کہ پاکستان اس معاملے میں بہت زیادہ حساس ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید افغانستان گئے تو انہوں نے طالبان قیادت سے اس تشویش کا اظہار کیا تھا۔