آج امریکا کی خواھش ہے کے تائیوان کو چین کا یوکرین بنا دیا جائے حکمت عملی مستحکم ہے شک کیا جا سکتا ہے کے پاکستان رجیم چنج اسی سلسلے کی کڑی ہو گی۔
گزشتہ کچھ سالوں سے امریکا ساؤتھ چائنا سی میں گہری سوچ کے ساتھ عمل پیرا ہے چین کے اس علاقے میں موجود غریب اور متوسط ممالک کے لئے جاری اکثر پروگراموں کو ناکام کروانا انڈیا کوریا جاپان کی بے انتہا مدد کرنا اور چین کے زیر انتظام علاقوں میں چین کے خلاف کاوشیں اسی سلسے کی گواہ ہیں۔
اب امریکا یوکرین میں کھیلے گئے پروگرام کو تائیوان میں رچانے کا ارادہ رکھتا دکھائی دیتا ہے۔
یوکرین میں روس کی کمزوری روسی زبان بولنے والے روس کے ہمدرد عوام ہیں جن کو بچائے رکھنے کی خاطر روس محتاط جنگ کر رہا ہے جس سے روس کو کامیابیاں کم اور نقصانات نا قابل تلافی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
چین کے گرد تقریباً تمام آسیانی ممالک کسی نہ کسی صورت امریکا کے مخلص ہیں شائد یہی وجہ تھی کے امریکا کو پچھلے چند ماہ میں پاکستان پر بھی پیار آگیا اور پاکستان کے حقیقی فیصلہ کرنے والے اداروں کو امریکہ نے دست شفقت سے سہلایا۔
چین اگر روس کی طرح تائیوان میں گرفتار ہوتا ہے تو بیرونی دنیا سے تجارت کا راستہ یا تو ٹھنڈے سمندر سے گزرتا ہے یا پھر پاکستان سے اور ایک راستہ مشرق وسطیٰ کی آزاد روسی ریاستوں سے بھی ممکن ہو سکتا ہے لیکن آگے آنے والے موسم سرما میں صرف پاکستانی راستہ ہی قدرے ممکن دکھائی دیتا ہے۔
اب پاکستان سے اگر آزمائشی طور پر واقعی ہی افغانستان نشانے بنانے کو ڈرون اڈے استمعال کئے گئے ہیں تو یقینن چین کی ناکا بندی میں بھی استمعال کیے جانے کا احتمال ہے۔
چند مہینے پہلے چینی صدر کے غالباً پاکستان کے بارے آسیان میں اس طرح سے بیانات سامنے آئے تھے کے امریکی پریشر سے دوست تعاون بدل لیتے ہیں۔
پاکستان کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو افراد ذاتی فائدے اٹھائیں گے اور مرضی کی سائیڈ کو مدد فراہم کریں گے جیسا کے اکثر ناکام ریاستوں میں ہوتا چلا آیا ہے یا پھر پاکستان طے کر لے اگر پاکستان چین کا ساتھ دیتا ہے تو اکہتر کا بدلہ لے سکتا ہے۔
1971 میں روس نے انڈیا کے ساتھ مل کر امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر کو دو لخت کر دیا تھا تا کے امریکہ کو ٹھیس پہنچے۔
یہ سب تفصیل ہنری کسنجر کی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اگر امریکا تائیوان میں انڈیا کو انگیج کرتا ہے جس کے قوی امکانات ہیں کے مودی کی انتہا پسندی اس کے ملکی مفاد پر غالب آ سکتی ہے اور وہ چین سے سکور برابر کرنے کے چکر میں اس جنگ میں کود پڑے تو پھر پاکستان باسٹھ کی چین کی آفر کو دوبارہ پیدا کر کے ماضی کے زخم دھو سکتا ہے۔
یا پھر اگر پاکستان نے امریکہ کا ہی ساتھ دینا ہے تو پھر کم از کم ریٹ مشرف سے لگوانا سیکھ لے، اللہ زندگی عطا کرے مشرف صاحب ابھی بقید حیات ہیں ان سے سیکھیں اچھا ریٹ کیسے لیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا الزام ہے کے زواری کے بدلے صرف خرسانی ملا، مشرف صاحب نے صرف زلزلے کے ریلیف میں شنید ہے کے آدھا ٹریلین لیا تھا باقی ٹریلین الگ۔