بھارت میں ساؤتھ انڈین سنیما کی حکمرانی اور پاکستان میں 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کی دھاک

بھارت میں ساؤتھ انڈین سنیما کی حکمرانی اور پاکستان میں 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کی دھاک
دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری بھارت کے روایتی فلمی مرکز کی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ بھارت میں سنیما کی شروعات دادا صاحب پھالکے نے 1912 میں بمبئی سے کی تھی۔ اس کے بعد متحدہ ہندوستان میں کولکتہ، چنائے، حیدرآباد، لاھور اور دیگر مراکز قائم ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارے فلمی مراکز میں تواتر سے فلم سازی ہوتی رہی مگر مرکزیت ہمشہ بمبئی ہی کو حاصل رہی۔ ہر دور میں وہاں سپر اسٹارز نے جنم لیا۔ کندن لال سہگل، اشوک کمار، دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند، شمی کپور، راجیش کھنہ، دھرمیندر، امیتابھ بچن، جتندر، متھن چکرورتی، انیل کپور، سنجے دت، سنی دیول، گووندا، عامر خان، سلمان خان، شاہ رخ خان، اکشے کمار، اجے دیوگن، ریتک روشن، رنبیر کپور، رنویر سنگھ تک یہ سلسلہ جاری رہا مگر پچھلے پانچ سالوں میں جنوبی بھارت کی فلموں نے جس تواتر سے باکس آفس پر شاندار کامیابیوں سمیٹیں، اس نے پہلی بار جنوبی بھارت کو سنیما کے میدان میں فوقیت دلا دی ہے۔

باہو بلی 1 اور 2، ٹرپل آر، کے جی ایف 1 اور 2 اور پشپا نے جنوبی بھارت کے سپر اسٹارز پربھاس، یش، الو ارجن جونیئر، این ٹی آر اور رام چرن کو بالی ووڈ اسٹارز سے ایک قدم آگے کر دیا۔ اوپر سے بالی ووڈ کے سپر سٹارز شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان، اکشے کمار، اجے دیوگن اور ریتک روشن کی فلموں کی ناکامیوں نے بہت سے سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ جنوبی بھارت کی فلموں کے ریمیک اب نہیں چلنے والے۔ اوپر سے بالی ووڈ کی فلموں کا سب سے پلس پوائنٹ ان کا میوزک ہوتا تھا جو اب رو بہ زوال ہے۔ رواں سال کے آخر تک اکشے کمار، اجے دیوگن اور اگلے سال شاہ رخ خان، سلمان خان اور ریتک روشن کی فلموں کو اگر بھرپور کامیابیاں نہ مل پائیں تو جنوبی بھارت کی سنیما انڈسٹری بھارت کا اہم ترین فلمی مرکز بن جائے گی۔

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ ایک بین الاقوامی سطح کی فلم ریلیز ہوئی ہے۔ بلاشبہ بلال لاشاری مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایک بین الاقوامی سطح کی پاکستانی فلم بنانے پر ناصر ادیب کے مکالمے ہمشہ متاثر کن رہے ہیں۔ میں ان کی فلموں کا مداح رہا ہوں۔ اگر 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کا یونس ملک کی 'مولا جٹ' سے مقابلہ کیا جائے تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ یونس ملک کی 'مولا جٹ' ایک بے کار ترین فلم تھی جس کی ہدایت کاری کا معیار بہت سطحی تھا۔ اس فلم کی کامیابی کی وجہ محض ناصر ادیب کے مکالمے اور مصطفیٰ قریشی کی ادکاری تھی۔

یونس ملک کی 'مولا جٹ' صرف پنجاب کے لیے تھی جبکہ بلال لاشاری کی 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' بین الاقوامی سطح کی فلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم اب تک دنیا بھر سے 50 کروڑ سے زائد کما چکی ہے۔ یاد رہے کہ اس کمائی میں پاکستانی سنیما گھروں کا حصہ صرف 11 کروڑ ہے۔ فواد خان نے پنجابی نہ ہونے کے باوجود اچھا کام کیا ہے۔ ماہرہ خان خوبصورت لگی ہیں۔ 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کی جان حمزہ علی عباسی ہیں جو پوری فلم میں چھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ناصر ادیب کے مکالموں کا حق ادا کر دیا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ 'وار' کے بعد بلال لاشاری کو ایک شاندار فلم بنانے پر مبارکباد!

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔