فلم ’’ دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی مشکلات ہیں کہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہیں اور فلم بین منتظر ہیں کہ ایسا کیا شاہکار تخلیق کیا گیا ہے جو اسے دوسری فلموں سے منفرد بنائے گا تاہم فلم بینوں کو اس سوال کا جواب پانے کے لیے فی الحال انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اے ملک نے فلم میں مولا جٹ کا نام استعمال کرنے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔
یہ درخواست 1979 کی فلم مولاجٹ کے پروڈیوسر سرور بھٹی نے دائر کی ہے جن کی جانب سے احسن مسعود عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست میں یہ موَقف اختیار کیا گیا ہے کہ سنسر بورڈ کے پاس فلم کا ٹائٹل دینے کا کوئی اختیار نہیں اور مولاجٹ کا ٹریڈمارک سرٹیفیکیٹ درخواست گزار سرور بھٹی کے پاس ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سنسربورڈ کے پاس ’’ دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، عدالت جاری شدہ سرٹیفیکیٹ کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری کرے۔
یاد رہے، گزشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے سرور بھٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ مخالف پارٹی کی توہین اور رسوائی نہ کریں۔
اس حکم امتناعی کے بارے میں ’’ دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی پروڈیوسر عمارہ حکمت نے ایک ٹویٹ کے ذریعے آگاہ کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ فلم کی ریلیز کی تاریخ کا اعلان بہت جلد کر دیں گی۔
واضح رہے کہ اس فلم کو رواں عیدالفطر پر ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر موجودہ حالات میں بظاہر ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
گزشتہ ماہ کے اوآخر میں لاہور ہائی کورٹ نے فلم کا نام، مکالمے، کردار اور موسیقی چوری کرنے کا معاملہ سنسر بورڈ کو بھجوا دیا تھا۔
عدالت نے مرکزی فلم سنسر بورڈ کو معاملہ بھجواتے ہوئے کہا تھا، سنسر بورڈ ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ کسی فلم کا نام، کردار اور مکالمے کیا کوئی دوسرا فلم ساز استعمال کر سکتا ہے؟