یقین کیجیئے صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ واقعی میں تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں ''دا لیجنڈ آف مولا جٹ'' کے ریلیز ہونے والے دوسرے ٹریلر کی۔
ٹریلر سے سب سے اچھی بات جو پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ واقعی دا لیجنڈ آف مولا جٹ وہ پاکستانی فلم ہے جس کی تیاری سو فیصد فلم ہی کی ہے۔ ورنہ آج کل تقریباً جتنی بھی پاکستانی فلمیں بن رہی ہیں وہ سب ڈرامے کی ایکسٹینشن ہیں۔ انہیں دیکھ کے لگتا ہی نہیں کہ ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈراما چل رہا ہے بڑی سکرین پر۔ جبکہ دا لیجنڈ آف مولا جٹ کا ٹریلر دیکھتے ہی فلم کا احساس ہوتا ہے۔
لائٹ بھی فلم کی ہے، کیمرا اینگلز بھی، ساؤنڈ ایفیکٹس، ڈائیلاگز پر لگائے گئے ایفیکٹس، ایکٹنگ سٹائل بلکہ ہر چیز ہی۔ اور کسی ڈبہ فلم کی نہیں بلکہ کوالٹی بھی کمال کی ہے۔ معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اس فلم کے ڈائریکٹر بلال لاشاری نے جس کا ثبوت یہ ٹریلر ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کی مہنگی ترین فلم ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 100 کروڑ لگے ہیں اسے بنانے پر۔ اور یہ پیسہ ضائع نہیں ہوا بلکہ فلم پر لگا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بڑے بڑے سیٹس، زبردست لوکیشنز اور نہایت زبردست گرافکس اس مووی کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
جس طرح قلعے، مٹی کے مکان اور قید خانے دکھائے گئے ہیں۔ جنگ یا پھر یوں کہیں کہ لڑائی نما جنگ کو شوٹ کیا گیا ہے اس سے کہیں کہیں ساؤتھ انڈین فلمز کا تاثر بھی ملتا ہے مگر ہم یہ ہرگز نہیں کہہ رہے کہ ساؤتھ انڈین موویز کو کاپی کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کے آرٹ ڈائریکٹر کو کہا گیا ہو کہ آپ نے Games Of Thrones بنانا ہے مگر پنجابی۔ خیر دا لیجنڈ آف مولا جٹ میں مولا جٹ کا کریکٹر نبھا رہے ہیں فواد خان۔ ظاہر ہے وہ ہیرو ہیں اس فلم کے۔ جبکہ ولن نوری نت کا رول کیا ہے حمزہ علی عباسی نے۔
2 منٹ 46 سیکنڈ کا ٹریلر سٹارٹ ہی ایک انتہائی طاقتور ڈائیلاگ سے ہوتا ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو جنم دینے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس نے بیٹا نہیں بلکہ پورے گاؤں کے لیے موت کا فرشتہ پیدا کیا ہے۔ ٹریلر میں ایک ایک کر کے کریکٹرز کو Introduce کرایا جاتا ہے۔
سب سے پہلے فواد خان یعنی مولا جٹ کو۔ بعد میں ماہرہ خان کو دکھایا جاتا ہے۔ ماہرہ خان ہیں فلم میں مکھو جٹی جو محبوبہ ہے مولا جٹ کی۔ حمزہ علی عباسی یعنی نوری نت کالے کپڑوں میں ہیں اور جیل سے باہر آ رہے ہیں۔ جبکہ اس ٹریلر میں عمائمہ ملک کے سینز نے بھی انہیں دارو کے کردار میں رجسٹر کرا دیا ہے۔
فارس شفیع مودا کے کردار میں سامنے آتے ہیں جبکہ گوہر رشید نے تو دھانسو Presence شو کی ہے اپنی۔ شاہی دربار، قید خانے، اور قلعے کے ساتھ ساتھ سرسوں کے کھیت نے بھی اپنا رنگ جمایا اور تاروں بھرے آسمان نے بھی۔
اور ان دونوں کی خوبصورتی کو مزید خوبصورت بنایا فواد خان اور ماہرہ خان کے ساتھ نے۔ جس طرح مولا جٹ اپنی چادر میں لیتا ہے ناں مکھو جٹی کو اور جس طرح تحفظ، سکون اور محبت کا احسا س مکھو کے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے، وہیں پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر جب تاروں بھرے آسمان تلے وہ دونوں بیٹھے ہوتے ہیں تو دکھ کا ڈائیلاگ بھی اس رومینٹک سین کے آگے ہار مان جاتا ہے۔اور پھر جنگ اور اس میں دھول اڑاتے گھوڑے۔ واہ کیا شاندار ٹریلر ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ فلم کیا ہوگی۔ خیر یہ تو تھیں اچھی اچھی باتیں۔ اب ذرا تنقید کا گنڈاسا بھی چلا دیتے ہیں۔ مولا جٹ فلم میں تھے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی۔ دونوں کی زبان پنجابی نہیں تھی۔ سلطان راہی اردو سپیکنگ اور مصطفیٰ قریشی سندھی تھے۔ مگر انہوں نے مولا جٹ میں ایسی پنجابی بولی کہ جتنی تعریف کریں کم ہے۔ لہجہ سو فیصد پنجابی تھا۔ مگر اس ٹریلر میں تقریباً سبھی کردار پنجابی لہجے کا حق ادا نہیں کر سکے۔ کہیں کہیں مختلف لوگوں نے ان ایکٹرز کی جگہ ڈبنگ بھی کی پر کام نہیں چلا۔ اور جب جب ان کے ڈائیلاگ سامنے آئے تب بھی پنجابی لہجہ اپنا نہ سکے یہ سب۔ اور سب سے مراد فواد خان، ماہرہ خان، حمزہ علی عباسی اور عمائمہ ملک سمیت سب ہی شامل ہیں۔