کیا تبدیلی کی ہوا تبدیل ہو چکی ہے؟

کیا تبدیلی کی ہوا تبدیل ہو چکی ہے؟
اقتدار کا کھیل سانپ اور سیڑھی کی مانند ہوتا ہے جہاں کب اور کیسے مسند اقتدار پر فائز بزرجمہروں کو ان کی نادانی یا سانپ سیڑھی کا کھیل رچانے والے ڈس لیں بالکل پتہ نہیں چلتا۔ ملک میں آج کل بالکل ہی ایک ایسا منظر نامہ تشکیل پاتا جا رہا ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والی قوتیں ان سے کام لے چکی ہیں۔ عمران خان کے ذریعے پورے سیاسی نظام پر کالک تھوپی گئی اور دانستاً منتخب رہنماؤں کو نیچا دکھایا گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی ریاست چلانے کی نااہلیت کو مقتدر قوتیں بھی پہلے سے جانتی تھیں اور بہت سے نقاد بھی۔ لیکن انہیں اس لئے میدان میں اتارا گیا کہ ایک طرف تو مسلم لیگ نواز کو اس کی نافرمانی کی سزا دی جائے اور دوسری جانب جمہوریت کے نظام سے عوام کو مزید بدظن کیا جائے۔ وہ پیج جس پر حکومت وقت اور مقتدر قوتیں اکٹھا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اب سرے سے ہی پھاڑ پھینکا گیا ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی نااہل حکومت اور وفاق میں اسد عمر کی ناقص معاشی حکمت عملی نے تحریک انصاف کی حکومت کو چند ماہ کے اندر ہی غیر مقبول بنا دیا ہے۔

آئی ایم سے واضح پیغام پاکستان کو دیا جا چکا ہے

ڈالر کی اونچی اڑان ہو یا سونے کے بڑھتی قیمتیں، سوئی گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو یا ادوایات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی مسئلے سےنبرد آزما ہونے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔



دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا جا چکا ہے کہ جب تک پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو شدت پسند تنظیموں کے مالیاتی امور کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مطمئن نہیں کرے گا اس وقت تک آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ مقتدر قوتیں جتنا زور لگا سکتی تھیں وہ لگا کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرضے لے آئیں، اب اس سے آگے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔ طاقت کی بساط رچانے یا اسے اکھاڑنے کا دارومدار معیشت کے مستحکم ہونے سے مشروط ہوتا ہے اگر معیشت بحران کا شکار ہو جائے تو پھر نہ تو بساط سجانے والے اپنے مہروں کو بچاتے ہوئے دوام بخش سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں مہرے بچانے میں کوئی خاص دلچسپی باقی رہ جاتی ہے۔

ان تلوں میں تیل نہیں، اس لئے یہی سب سے بہتر کٹھ پتلی ہیں

تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ہوئے یہ آٹھواں ماہ ہے اور اس دوران بڑھتے ہوئے افراط زر اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے عام آدمی کا جینا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ وہ جو تحریک انصاف کو اقتدار میں لائے تھے انہیں بخوبی معلوم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اور ملک کو دوبارہ ون یونٹ اور صدارتی نظام کی جانب واپس لانے کیلئے تحریک انصاف اور عمران خان سے اچھی اور کوئی کٹھ پتلیاں ہو ہی نہیں سکتی تھیں۔

عمران خان کا سارا دھیان اس وقت نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے میں صرف ہوتا ہے

ایک ایسی جماعت جو ایک منصفانہ ماحول میں منعقد کردہ انتخابات میں خود سے ملک بھر میں پچیس نشستیں بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو اور جسے پرویز مشرف کی کابینہ اور مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر ہر نئے حاکم وقت کی شریعت پر اذانیں دینے والے موسمی پرندوں کی مدد سے قومی اسمبلی میں اکثریت دلوائی گئی ہو وہ خود بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ اقتدار میں اس کی پہلی اور آخری باری ہے۔ چنانچہ عمران خان کا سارا دھیان اس وقت نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے اور ان پر مشرف کی مانند جبر کرنے میں صرف ہوتا ہے جبکہ تحریک انصاف کے باقی رہنما سیلفیوں اور فوٹو سیشن کروا کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔



’بڑبڑاہٹ‘ کا خوفناک نتیجہ

اس صورتحال میں مقتدر قوتوں نے پہلے بھی ہلکے پھلکے انداز میں کئی بار تحریک انصاف کو مطلع ابر آلود ہونے کی وارننگ دی لیکن اس کا خاطر خواہ اثر اقتدار کے مزے اڑاتی تحریک انصاف پر نہ پڑا۔ جب مقتدر قوتوں کی شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے کرنے کی باتیں منظر عام پر آئیں تو وزیراعظم صاحب نے ہلکی سی ’بڑبڑاہٹ‘ بھی کر ڈالی کہ اگر معاملات ایسے چلانے ہیں تو پھر حکومت بھی مقتدر حلقے خود ہی کر لیں۔ اس بڑبڑاہٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام ٹی وی اینکرز اور ہمارے وہ صحافی ساتھی جو قوم کو یہ یقین دلوانے میں مصروف تھے کہ عمران خان اب دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا انہوں نے فوراً قبلہ بدلا اور طنز و تنقید کے نشتر لے کر تحریک انصاف کی حکومت پر چڑھ دوڑے۔

جب عارف حمید بھٹی بھی پی ٹی آئی کو کوسنا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ ہوا تبدیل ہو چکی ہے

جب محترم عارف حمید بھٹی جیسے افراد ٹی وی پر بیٹھ کر عمران خان کو کوسنا شروع کر دیں اور سونے کی سمگلنگ میں ملوث شخصیت کا روایتی قصیدہ خواں ٹی وی چینل بھی تحریک انصاف پر بولنا شروع کر دے تو اس کا مفہوم بیحد واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ ہوا اب تبدیل ہو چکی ہے۔



ہمارے یہاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں کے الیکٹیبلز اس ہوا کے رخ پر چلنے کو فرض سمجھتے ہیں اس لئے وہ اکثریت جو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کروائی گئی تھی اس کو ختم ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بدلتے ہوئے تیور بھی اس بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی گھاگ اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور وہ عرصہ دراز سے مقتدر قوتوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش میں مگن ہیں۔

حمزہ شہباز کے گھر پر چھاپہ کچھ اور ثابت کر رہا ہے



دوسری جانب مسلم لیگ نواز اس وقت لب سی کر شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کی کامیابی کی دعائیں مانگتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے حالات میں جب یہ جماعت اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے سے پیچھے ہٹ چکی ہے اس کو چھیڑ کر یعنی حمزہ شہباز کے گھر پر نیب کا چھاپہ پڑوانا اور پھر شہباز شریف پر آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے نئے مقدمات قائم کرنا صاف بتاتا ہے کہ اب عمران خان اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں اور سیاسی شہید بننے کے چکر میں ہیں۔ آصف زرداری حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان نے بھی حال میں ہی اسلام آباد دھرنا دینے کا اشارہ دیا ہے۔

حکومت چاہتی ہے جانا، اور اپوزیشن اسے اقتدار میں رکھنا چاہتی ہے

شنید ہے کہ مولانا سے مقتدر حلقوں کی دوری آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ یعنی بات اب کچھ یوں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت چاہتی ہے کہ مقتدر حلقے یا اپوزیشن اس کی چھٹی کروا دیں اور وہ اپنی نااہل حکمرانی کے طوق سے چھٹکارہ پا سکے جبکہ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ تحریک انصاف کو نکالنے کا کام اپوزیشن سرانجام دے۔ لیکن اپوزیشن میں نواز شریف، محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حکومت کو ہرگز بھی نہیں گرانا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت خود اپنے نعروں اور دعوؤں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کیونکہ بہت سے اپوزیشن کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ انہیں تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کیلئے استعمال کر کے مشرف کی ایمرجنسی پلس جیسا کوئی وقتی سیٹ اپ لایا جا سکتا ہے جو بعد میں صدارتی نظام میں تبدیل ہو سکتا ہے۔



عوام میں جڑ پاتے بیانئے ہمیشہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بنیادوں میں اجتماعی فہم کا جز شامل ہوتا ہے

راقم نے گذشتہ برس ہی تحریر کیا تھا کہ بند کمروں میں ایجاد ہونے والی ڈاکٹرائنیں نمو کی قوت سے محروم ہوتی ہیں کیونکہ ان کی جڑوں میں اجتماعی عقل و فہم کا فقدان ہوتا ہے جبکہ عوام میں جڑ پاتے بیانئے ہمیشہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بنیادوں میں اجتماعی فہم کا جز شامل ہوتا ہے۔ اگر بند کمروں میں فروغ پاتی ڈاکٹرائن میں نمو کی قوت موجود ہوتی تو ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار نہ کرنی پڑتی۔ اگر اب بھی کچھ حلقے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مصنوعی طریقے سے یہ نظام اور ریاست نہیں چل سکتے اور پھر سے صدارتی نظام یا ایمرجنسی پلس جیسی کوئی چیز متعارف کروانا چاہتے ہیں تو ہم بتدریج آگے بڑھنے کے بجائے سن پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی جانب واپسی کا سفر جاری رکھیں گے۔

رہی بات تحریک انصاف کی تو بے رحم ہوا کے تھپیڑے اگر کنونشنل لیگ اور قاف لیگ کی مانند اسے بھی سیاست کے دشت اور تاریخ کے اوراق میں کہیں گم کرنے کیلئے پر تولے بیٹھے ہیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔