فاطمہ بھٹو کی سیاست میں واپسی اور سندھ کی سیاست میں آثارِ تلاطم

فاطمہ بھٹو کی سیاست میں واپسی اور سندھ کی سیاست میں آثارِ تلاطم
سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ کسی بھی وقت کچھ بھی بدل سکتا ہے۔ تاہم، خطے کے معروضی حالات بھی سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی سیاست دو خاندانوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سندھ میں بھٹو خاندان اور پنجاب میں شریف خاندان۔ یہ دونوں خاندان دونوں صوبوں کو اپنے رجوڑاے سمجھ کر حکومت کرتے رہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے پنجاب میں سیاسی تبدیلیوں کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں، اور لگ رہا تھا کہ نون لیگ کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ پھر الیکشن کے نتائج آئے۔ یوں پچھلے دو سالوں سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ 2023 کے الیکشن میں تحریک انصاف اپنا اقتدار پجاب میں قائم رکھ پائے گی کہ نہیں۔

جہاں تک سندھ کی سیاست ہے، وہاں اب تک پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط ہے۔ اگر کراچی کی مردم شماری ٹھیک طرح کی جائے، سندھ اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں ردوبدل کیا جائے، تحریک انصاف اور جی ڈی اے مل کر اندرون سندھ میں متحرک ہو جائیں تو تبدیلی کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے، مگر اندرون سندھ کی سیاست ابھی تک بھٹو خاندان کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر بھٹو خاندان کے اندر کا کوئی فرد موجودہ حکمران خاندان کو للکارے تو شاید بازی پلٹنے کے آثار پیدا ہوں۔ بھٹو خاندان کے دو دھڑے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو 1993 سے مدمقابل ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو نے 23 حلقوں سے الیکشن لڑا۔ صرف ایک جگہ سے کامیاب ہوئے۔ پھر ان کی ہلاکت کے بعد ان کی سیاسی جماعت غیر فعال ہو گئی۔

2008 میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد زرداری خاندان نے پارٹی پر اجارہ داری قائم کر لی۔ اب بلاول بھٹو سیاسی طور پر متحرک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ میں ایک بار پھر فاطمہ بھٹو کے فعال ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی سیاسی میدان میں اترنے کو پر تول رہی ہیں۔ فاطمہ کا اب تک تعارف ایک ادیب کا ہے۔ انہوں نے سیاسی میدان کی بجائے دانشوری کو ترجیح دی۔ ان کی اب تک دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ دونوں بھارت کے ناشرین نے شائع کی ہیں۔

ایک زمانے میں ان کا بھارت بہت آنا جانا تھا۔ وہ اندرا گاندھی کے خاندان کے بہت قریب ہو گئی تھیں۔ میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کیونکہ جس نے مجھے یہ بات بتائی ہے، وہ فاطمہ اور غنویٰ بھٹو کے بہت قریب تھے۔ فاطمہ اور رہوال گاندھی ابھی رابطے میں ہیں۔ فاطمہ بھٹو کی وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما سے بھی بہت دوستی تھی اور 2018 کے الیکشن سے پہلے خبریں شائع ہوئیں کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ میں سیاسی اتحاد ہونے جا رہا ہے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

ایک زمانے میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی رہائشگاہ پر غنویٰ بھٹو سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں جن میں ان سے فاطمہ بھٹو اور ان کے بھائی بھٹو جونیئر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ غنویٰ بھٹو بہت زیادہ ڈاکٹر مبشر حسن کی سیاسی سوچ کے زیرِ اثر تھیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن موجودہ سیاسی نظام کے بہت بڑے ناقد تھے۔ غنویٰ بھٹو اپنے فاطمہ اور بھٹو جونیئر کے بارے میں فخر سے بتایا کرتی تھیں کہ ان کا زیادہ وقت اپنے دادا کی لائبریری میں گزرتا ہے۔ وہ دونوں اس سرمایہ دارانہ سیاست کے خلاف ہیں اور اس کے لئے مس فٹ ہیں۔

اب اگر غنویٰ بھٹو نے فاطمہ کو سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے تو کیا ہمارا سیاسی نظام بدل گیا ہے؟ کیا سرمایہ دارانہ نظام کا اثرورسوخ ختم ہو گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ تو فاطمہ بھٹو جو ایک دانش مندانہ سوچ کی حامل خاتون ہیں، بلاول بھٹو کا کیسے مقابلہ کریں گی؟ اگر فاطمہ نے واقعی سیاست کرنی ہے تو پھر ان کو موجودہ سیاسی عمل کا حصہ بننا پڑے گا اور تحریک انصاف، جی ڈی اے، متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر سیاسی بازی کھیلنی پڑے گی۔ ان کا مقابلہ جن کے ساتھ ہے وہ سرمائے اور سیاسی طاقت دونوں میں ان سے زیادہ توانا ہیں۔ ہنوز سندھ کی سیاست میں تلاطم کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔